
مجیب:مولانا عابد عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-1902
تاریخ اجراء:25صفر المظفّر1446ھ/31اگست2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
اس وقت دور حاضر میں کتنا شرعی حق مہر رکھنا چاہئے جو کہ شرعی ، دینی اور دنیاوی لحاظ سے کافی ہو، تو رشتۂ ازدواج خوش اسلوبی سے جاری رہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
شرعی طور پر مہر کی کم سے کم مقدار دس درہم یعنی دو تولے ساڑھے سات ماشے(موجودہ وزن کے حساب سے30 گرام،618ملی گرام) چاندی یااتنی چاندی کی رقم وغیرہ ہے، اور زیادہ سے زیادہ کی کوئی مقدار مقرر نہیں ہے، زیادہ جتنا بھی مقرر کیا جائے اتنا ہی دینا واجب ہوگا البتہ مہر میں مناسب یہ ہے کہ اتنا رکھا جائے جو اداکرنے میں آسان ہو۔
امامِ اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”حیثیت سے زائد مہر نا مناسب ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد12، صفحہ177، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
بہارِ شریعت میں ہے: ” مہر کم سے کم دس ۱۰ درم ہے اس سے کم نہیں ہوسکتا۔“(بہارشریعت، جلد 2، صفحہ 64، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
یاد رہے رشتہ ازدواج کا عمدہ طریقے سے جاری رہنا حق مہر پر موقوف نہیں بلکہ میاں بیوی کی ذہنی ہم آہنگی، ایک دوسرے کا ادب و احترام، باہم جائز خواہشات کا خیال رکھنے، ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں ساتھ دینے وغیرہ پر منحصر ہے۔ کئی شادیوں میں بھاری بھرکم مہر رکھنے کے باوجود ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے طلاق ہو جاتی ہے جبکہ کئی مقامات پر مہر کی کم سے کم مقدار مقرر کی جاتی ہے اور میاں بیوی کے صبر اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے کی وجہ سے گھر چلتا رہتا ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم