
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FAM-539
تاریخ اجراء:07 ربیع الاول1446ھ/12ستمبر 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ حاملہ مطلقہ عورت وضع حمل یعنی بچہ پیدا ہونے سے پہلے دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے یا نہیں؟ اگر حاملہ طلاق والی عورت نے، حمل ہونے کی حالت ہی میں دوسری جگہ نکاح کرلیا، تواب اس نکاح سے متعلق کیا حکم ہوگا؟ کیا ایسا نکاح درست ہوجائے گا یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
حاملہ عورت کی عدت وضعِ حمل یعنی بچہ پیدا ہونے تک ہے، اس سے پہلے وہ نکاح نہیں کرسکتی، دورانِ عدت نکاح سخت ناجائزو حرام ہے، نکاح تو دور کی بات، عدت کی حالت میں عورت کو نکاح کاپیغام دینا بھی حرام وگناہ ہے۔ اگر کسی حاملہ عورت نے وضعِ حمل سے پہلے یعنی دوران عدت ہی نکاح کرلیا، تویا تو یہ نکاح اصلاً باطل ٹھہرے گا، یا پھر نکاحِ فاسد ہوگا۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر حاملہ عورت نے حمل کی حالت میں یعنی دورانِ عدت ہی نکاح کرلیا ہو، تو اگر نکاح کے وقت مرد کو معلوم ہو کہ عورت عدت میں ہے، تو اس صورت میں یہ نکاح سِرے سے ہوگا ہی نہیں، محض باطل ٹھہرے گا، اگر مرد و عورت کے درمیان میاں بیوی والے معاملات ہوئے، تو وہ معاذ اللہ عزوجل زنا ہوگا، اس صورت میں مطلقاً عورت پر عدت لازم نہیں ہوگی چاہے میاں بیوی والے معاملات ہوئے ہو ں یا نہ ہوئے ہوں، البتہ گناہ بہرحال ہوگا،جس سے دونوں پر توبہ کرنا لازم ہوگا،اور اب ان کیلئے حکم یہ ہوگا کہ دونوں ایک دوسرے سے فوراً الگ ہوجائیں۔ نیز اس دوران اگر عورت کو وضع حمل نہ ہوا ہو،تو عورت وضع حمل تک صرف پہلے والے شوہر کی عدت کو پورا کرلے،اور اگرو ضع حمل ہوگیا ہو تو اب کسی دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے،چاہے تو اِسی دوسرے والے سے ہی شرعی طریقہ کار کے مطابق نکاح کرلے۔
اور اگر مرد کو معلوم ہی نہ ہو کہ عورت عدت میں ہے،تو اب عدت میں ہونے والا ایسا نکاح، نکاحِ فاسد ہوگا، نکاح فاسد کا حکم یہ ہے کہ چاہے اس میں میاں بیوی والے معاملات ہوئے ہوں یا نہ ہوئے ہوں، بہرصورت ایسے نکاح کو مرد و عورت دونوں پر فسخ (ختم) کرنا واجب ہوتا ہے، اور یہ ضروری نہیں کہ دوسرے کے سامنے فسخ کرے، بلکہ اگر دوسرا موجود نہیں جب بھی فسخ کرنے سے فسخ ہوجائے گا۔ فسخ کا طریقہ یہ ہے کہ مرد، عورت کے متعلق کہہ دے کہ میں نے تجھے یااُسے چھوڑدیا، یا عورت، مرد سے متعلق کہہ دے کہ میں تجھ سے یااُس سے جداہوگئی۔ چونکہ نکاح فاسد میں ہمبستری ہونے سے عدت واجب ہوتی ہے، اس کے بغیر نہیں، لہذا اگر دونوں کے درمیان میاں بیوی والے تعلقات ہوئے ہوں تو عورت پر اس نکاح فاسد کی بھی عدت واجب ہوگی، ورنہ عدت نہیں۔ لہذا اگر حاملہ عورت عدت میں نکاح فاسد کرلے اور اس میں ہمبستری نہ ہوئی ہو، تو اس فاسد نکاح کی عدت نہیں ہوگی، اب اگر حاملہ عورت کا حمل وضع نہ ہوا ہو تو وضعِ حمل کے بعد، اوراگر وضع حمل ہوچکا ہو، تو متارکہ (ایک دوسرے سے بذریعہ قول چھٹکارے) کے فوراً بعد اِس دوسرے خاوند سے یا جس سے چاہے نکاح کرسکتی ہے، البتہ اگر نکاح فاسد میں ہمبستری ہوگئی ہو توپھر نکاح فاسد کی عدت بھی لازم ہوگی، لہذا اب اگر پہلے والی عدت پوری ہوچکی ہو یعنی وضع حمل ہوچکا ہو، تو اب عورت کو کسی دوسرے سے نکاح کرنے کیلئے تین حیض عدت کے پورا کرنا لازم ہوں گے، اس کے بعد کسی دوسرے سے نکاح کرسکتی ہے، ہاں اگر اسی کے ساتھ ہی نکاح کرناچاہے، جس کے ساتھ نکاح فاسد ہوا ہے، تو متارکہ کے بعد فوراً ہی اُس سے نکاح کرسکتی ہے، اور اگر وضع حمل نہیں ہوا، یعنی پہلے شوہرکی عدت بھی باقی ہو تو اس صورت میں دونوں عدتیں متداخل (ایک دوسرے میں داخل) ہوجائیں گی، لہذا وضع حمل ہوتے ہی دونوں عدتیں پوری ہوجائیں گی، اور اس کے بعد وہ جس سے چاہے نکاح کرسکتی ہے۔
حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے، چاہے طلاق والی ہو، بیوہ ہو یا نکاح فاسد میں متارکہ والی ہو، چنانچہ بحرا لرائق میں ہے: ’’و عدة الحامل وضع الحمل لقوله تعالى {وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن} أطلقها فشمل الحرة و الأمة المسلمة و الكتابية مطلقة أو متاركة في النكاح الفاسد أو وطء بشبهة و المتوفى عنها زوجها لإطلاق الآية‘‘ ترجمہ: اور حاملہ کی عدت وضع حمل(بچہ جننے تک) ہے، اللہ تعالی کے اس فرمان کی وجہ سے :اور حمل والیوں کی عدت کی مدت یہ ہے کہ وہ اپنا حمل جن لیں، اس کو مطلق بیان کیا، تو آیت کے اطلاق کی وجہ سے آزاد، باندی، مسلمان، کتابیہ، طلاق والی یا نکاح فاسد میں متارکہ والی، یا جس سے شبہہ کی وجہ سے وطی کی گئی ہو، اور وہ عورت جس کا خاوند فوت ہوگیا ہو، یہ سب عورتیں اس میں شامل ہیں۔(بحر الرائق، جلد 4، صفحہ145 ، دار الکتاب الاسلامی، بیروت)
بحالتِ عدت نکاح بالاجماع حرام ہے ،چنانچہ الاختیار لتعلیل المختار میں ہے: ’’أن نكاح المعتدة حرام بالإجماع‘‘ ترجمہ: عدت والی عورت کا نکاح بالاجماع حرام ہے۔(الاختیار لتعلیل المختار، جلد 3، صفحہ 111، مطبوعہ قاهرة)
فتاوی عالمگیری میں ہے: ’’لا يجوز للرجل أن يتزوج زوجة غيره وكذلك المعتدة، كذا في السراج الوهاج. سواء كانت العدة عن طلاق أو وفاة‘‘ ترجمہ: آدمی کیلئے کسی دوسرے کی بیوی سے، اور اسی طرح عدت والی خاتون سے نکاح کرنا جائز نہیں، یونہی سراج الوھاج میں ہے،چاہے عدت طلاق کی ہو یا وفات کی۔(الفتاوی الھندیۃ، جلد1 ، صفحہ 280، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
عورت کو بحالت عدت نکاح کا پیغام دینا بھی جائز نہیں، چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے: ”لا يجوز للأجنبي خطبة المعتدة صريحا سواء كانت مطلقة أو متوفى عنها زوجها“ ترجمہ: کسی اجنبی شخص کے لئے عدت والی عورت کو واضح لفظوں میں نکاح کا پیغام دینا جائز نہیں، چاہے وہ عورت طلاق کی عدت میں ہو یا وفات کی۔(بدائع الصنائع، جلد 03، صفحہ 204، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
اگر مرد نے عورت کو عدت میں جانتے ہوئے نکاح کیا، تو یہ نکاح اصلاً ہی نہ ہوگا، اس صورت میں مطلقاً عدت لازم نہیں ہوگی، چنانچہ رد المحتار علی الدر المختار میں ہے: ’’نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا۔قال فعلی ھذا الفرق بین فاسدہ و باطلہ فی العدۃ،ولھذا یجب الحد مع العلم بالحرمۃ لانہ زنی‘‘ ترجمہ: دوسرے کی منکوحہ اور دوسرے کی معتدہ عورت سے نکاح،تو ایسے نکاح کے بعد دخول، عدت کو واجب نہیں کرتا، جبکہ اسے معلو م ہو کہ وہ دوسرے کی منکوحہ ہے(یا عدت میں ہے)کیونکہ اس نکاح کے جواز کا کوئی بھی قائل نہیں ہے،تو وہ اصلاً منعقد ہی نہیں ہوگا، فرمایا کہ اسی بات سے عدت میں نکاح کے فاسد اور باطل ہونے کے درمیان فرق ہوجاتا ہے، اور اسی وجہ سے حرام ہونے کے علم کے باوجود نکاح کرنے سے حد واجب ہوتی ہے،کیونکہ یہ زنا ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار، جلد 4، صفحہ 266، دار المعرفۃ، بیروت)
عدت میں ہونے والا نکاح، اس وقت فاسد ہوگا جب عورت کا عدت میں ہونا معلوم نہ ہو، چنانچہ رد المحتار علی الدر المختار میں ہی ہے: ’’ان الدخول فی النکاح الفاسد موجب للعدۃ۔۔۔ و مثل لہ فی البحر ھناک۔۔۔ نکاح المعتدۃ‘‘ ملتقطا۔ ترجمہ: نکاح فاسد میں دخول عدت کو واجب کرتا ہے۔ بحر الرائق میں اس مقام پر نکاح فاسد کی مثالوں میں عدت والی عورت کی مثال بیان کی ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار، جلد5 ، صفحہ 199، دار المعرفۃ، بیروت)
علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے بحر الرائق کے قول کواس شرط کے ساتھ مقید کرتے ہوئے فرمایا: ’’فیقید قول البحر ھنا: و نکاح المعتدۃ بما اذا لم یعلم بانھا معتدۃ‘‘ ترجمہ: لہذا بحرالرائق کا قول یہاں اس شرط کے ساتھ مقید ہوگا کہ جب عورت کا عدت میں ہونا معلوم نہ ہو۔(رد المحتار علی الدر المختار، جلد4 ، صفحہ 266، دار المعرفۃ، بیروت)
سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے ایک عورت کے عدت کے اندر نکاح کرنے سے متعلق سوا ل ہوا ،تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواب ارشاد فرمایا:” اگربکر نے یہ جان بوجھ کر کہ ابھی عورت عدت میں ہے اس سے نکاح کرلیا تھا جب تو وہ نکاح نکاح ہی نہ ہوا زنا ہوا، تواس کے لئے اصلاً عدت نہیں اگرچہ بکر نے صدہا بار عورت سے جماع کیا ہوکہ زنا کاپانی شرع میں کچھ عزت ووقعت نہیں رکھتا عورت کو اختیار ہے جب چاہے نکاح کرلے۔ اور اگر بکر نے انجانی میں نکاح کیا تو یہ دیکھیں گے کہ اس چار برس میں ا س نے عورت سے کبھی جماع کیا ہے یانہیں، اگر کبھی نہ کیا تو بھی عدت نہیں، بکر کے چھوڑتے ہی فوراً جس سے چاہے نکاح کرلے،اور جو ایک بار بھی جماع کرچکا ہے تو جس دن بکر نے چھوڑ ااس دن سے عورت پر عدت واجب ہوئی جب تک اس کی عدت سے نہ نکلے دوسرے سے نکاح نہیں کرسکتی۔“(فتاوی رضویہ،جلد 13، صفحہ 303،302، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
فتاوی رضویہ میں ہے:”اگر اس دوسرے شخص کو وقت نکاح معلوم تھا کہ عورت ہنوزعدت میں ہے یہ جان کر اس سے نکاح کرلیا جب تو وہ زنائے محض تھا عدت کی کچھ حاجت نہیں نہ طلاق کی ضرورت بلکہ ابھی جس سے چاہے نکاح کرے جبکہ شوہر اول کی عدت گزر چکی ہو اور اگر اسے عورت کا عدت میں ہونا معلوم نہ تھا توطلاق کی اب حاجت نہیں مگر متارکہ ضرو ر ہے یعنی شوہرکا عورت سے کہنا کہ میں نے تجھے چھوڑدیا یا عورت کا اس سے کہہ دینا کہ میں تجھ سے جدا ہوگئی، اس کے بعد عدت بیٹھے عدت کے بعد جس سے چاہے نکاح کرے۔“(فتاوی رضویہ،جلد 11، صفحہ 421، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
نکاح فاسد میں فسخ کے حکم سے متعلق تنویر الابصار مع درمختارمیں ہے: ’’(و) يثبت (لكل واحد منهما فسخه ولو بغير محضر عن صاحبه دخل بهاأولا) في الأصح‘‘ترجمہ:اورمردوعورت میں سے ہرایک کوفاسدنکاح ختم کرنے کااختیارہوتاہے اگرچہ دوسرے کی غیرموجودگی میں کرے،عورت کے ساتھ دخول ہواہویانہ ہوا،اصح قول کے مطابق۔(تنویر الابصار مع در مختار، جلد4 ، صفحہ267 ، دار المعرفۃ، بیروت)
بہار شریعت میں ہے: ”نکاحِ فاسد میں جب تک وطی نہ ہو مہر لازم نہیں یعنی خلوتِ صحیحہ کافی نہیں اور وطی ہوگئی تو مہرِ مثل واجب ہے، جو مہر مقرر سے زائد نہ ہو اور اگر اس سے زیادہ ہے تو جو مقرر ہوا وہی دیں گے اور نکاحِ فاسد کا حکم یہ ہے کہ اُن میں ہر ایک پر فسخ کر دینا واجب ہے۔ اس کی بھی ضرورت نہیں کہ دوسرے کے سامنے فسخ کرے اور اگر خود فسخ نہ کریں تو قاضی پرواجب ہے کہ تفریق کر دے اور تفریق ہوگئی یا شوہر مر گیا تو عورت پر عدّت واجب ہے جبکہ وطی ہو چکی ہو۔۔۔ نکاح فاسد میں تفریق یامتارکہ کے وقت سے عدّت ہے، اگرچہ عورت کو اس کی خبر نہ ہو۔ متارکہ یہ ہے کہ اسے چھوڑ دے، مثلاً یہ کہے میں نے اسے چھوڑا، یا چلی جا، یا نکاح کر لے یا کوئی اور لفظ اسی کے مثل کہے اور فقط جانا، آنا ،چھوڑنے سے متارکہ نہ ہوگا، جب تک زبان سے نہ کہے اور لفظ طلاق سے بھی متارکہ ہو جائے گا۔۔۔ پھر اس سے نکاح صحیح کرنے کے بعد تین طلاق کا اسے اختیار رہے گا۔“(بھار شریعت، جلد 2، حصہ 7، صفحہ 72، 73، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)
نکاح فاسد میں ہمبستری ہوجائے، اور پہلی عدت پوری ہوچکی ہو، تو متارکہ کے بعد بغیر دوسری عدت کے اسی نکاح فاسد والے خاوند سے نکاح کرسکتی ہے، ہاں دوسرے سے نکاح کرنا چاہے تو ا ب دوسری عدت کے بعد کرسکے گی، چنانچہ رد المحتار علی الدر المختار میں ہے: ’’وفي البحر عن الخانية: وإذا تمت عدة الأول حل للثاني أن يتزوجها لا لغيره ما لم تتم عدة الثاني بثلاث حيض من حين التفريق‘‘ ترجمہ: اور بحر الرائق میں خانیہ سے ہے کہ جب پہلی عدت پوری ہوجائے تو دوسرے خاوند کیلئے وہ حلال ہوجائے گی کہ وہ اس سے نکاح کرلے، اس کے علاوہ کسی اور شخص کیلئے اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک کہ تفریق کے وقت سے تین حیض آکر دوسری عدت بھی مکمل نہ ہوجائے۔(رد المحتار علی الدر المختار،جلد5،باب العدۃ، صفحہ203 ، دار المعرفۃ، بیروت)
اگر پہلی عدت پوری نہ ہوئی اور اس کے بعد نکاح فاسد میں متارکہ ہوا، تو اب دونوں عدتیں متداخل ہوجائیں گی، چنانچہ رد المحتار علی الدر المختار ہی میں ہے: ’’المطلقة إذا تزوجت في عدتها فوطئها الثاني وفرق بينهما تداخلتا عندنا‘‘ ترجمہ: اور مطلقہ عورت نے اگر عدت میں کسی دوسرے سے نکاح کرلیااور اس دوسرے نے اس سے ہمبستری کرلی اور دونوں میں تفریق کردی گئی،تو دونوں عدتیں ایک دوسرے میں متداخل(یعنی ایک دوسرے میں شامل)ہوجائیں گی۔(رد المحتار علی الدر المختار، جلد5 ، باب العدۃ، صفحہ203 ،دار المعرفۃ، بیروت)
وضع حمل سے ایک سے زائد عدتوں کے پورا ہونے سے متعلق،تبیین الحقائق میں ہے: ’’إذا كانت العدتان من شخص واحد أو من أشخاص وهي حامل حيث ينقضي الكل بالوضع إجماعا‘‘ ترجمہ: جب ایک شخص یا دو شخصوں سے دو عدتیں لازم ہوں اور عورت حاملہ ہو تو بالاجماع وضع حمل سے تمام عدتیں پوری ہوجائیں گی۔(تبیین الحقائق، جلد3 ،باب العدۃ، صفحہ31 ، مطبوعۃ قاهرة)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم