کیا چھ ماہ بعد پیدا ہونے والا بچہ جائز تصور ہوگا؟

 

کیا چھ ماہ بعد پیدا ہونے والا بچہ جائز تصور ہوگا؟

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ شادی کے چھ ماہ بعد پیدا ہونے والا بچہ کیا جائز تصور ہوگا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے، لہذا نکاح کے پورے چھ مہینے یا اس سے زائد عرصے میں پیدا ہونے والا بچہ جائز اور ثابت النسب شمار ہوگا ۔

چنانچہ فتاوٰی عالمگیری، جوہرۃ النیرۃ، بدائع الصنائع، مبسوط وغیرہ کتبِ فقہیہ میں ہے :

”و النظم للاول“ إذا تزوج الرجل امرأة فجاءت بالولد لأقل من ستة أشهر منذ تزوجها لم يثبت نسبه، وإن جاءت به لستة أشهر فصاعدا يثبت نسبه منه اعترف به الزوج أو سكت۔“

یعنی مرد جب کسی عورت سے نکاح کرے اور  عورت کو  نکاح کے بعد چھ مہینے سے کم میں بچہ پیدا ہو جائے تو اس بچے کا نسب مرد سے ثابت نہیں ہوگا، اور اگر اس عورت کو چھ ماہ یا اس سے زائد پر بچہ پیدا ہو تو اس بچے کا نسب مرد سے ثابت ہوگا خواہ مرد اس کا اقرار کرے یا خاموش رہے۔(فتاوٰی عالمگیری ، کتاب الطلاق، باب ثبوت النسب، ج 01، ص 536، مطبوعہ پشاور)

بنایۃ شرح الھدایۃ  میں ہے :

”(وإذا جاءت به لستة أشهر فصاعدا يثبت نسبه منه، اعترف به الزوج أو سكت لأن الفراش قائم والمدة) أي مدة هذا الحمل من وقت النكاح (تامة) فيثبت النسب“

 یعنی اگر عورت کو  چھ ماہ سے زائد  مدت کے بعد ولادت ہو تو اس بچے کا نسب شوہر سے ثابت ہوگا، خواہ شوہر اس کا اقرار کرے یا خاموش رہے، کیونکہ ازدواجی تعلقات قائم ہیں اور نکاح کے وقت سے اس حمل کی مدت پوری ہے، لہذا اس بچے کا نسب شوہر  سے ثابت ہوگا۔(البناية شرح الهداية، کتاب الطلاق، باب ثبوت النسب، ج05، ص 638، دار الكتب العلمية،  بيروت)

فتح القدیر میں ہے :

”(قوله وإذا تزوج الرجل امرأة فجاءت بولد لأقل من ستة أشهر منذ يوم تزوجها لم يثبت نسبه) لأن أقل مدة الحمل ستة أشهر فلزم كونه من علوق قبل النكاح ، وإن جاءت به لأكثر منها ثبت ، ولا إشكال سواء اعترف به الزوج أو سكت، وكذا إذا جاءت به لتمام الستة بلا زيادة لاحتمال أنه تزوجها واطئا لها فوافق الإنزال النكاح ، والنسب يحتاط في إثباته۔“

  یعنی مرد جب کسی عورت سے نکاح کرے اور وہ عورت نکاح کے بعد چھ مہینے سے کم میں بچہ لے آئے تو اس بچے کا نسب مرد سے ثابت نہیں ہوگا کیونکہ کم از کم مدتِ حمل چھ ماہ ہے پس یہاں اس سے کم میں بچہ پیدا ہونے پر یہ بات لازم ہے کہ یہ حمل نکاح سے پہلے کا ہے۔ اور اگر  عورت  کو چھ ماہ سے زائد پر بچہ کی ولادت ہو تو اس بچے کا نسب مرد سے ثابت ہوگا، خواہ وہ مرد اس کا اقرار کرے یا خاموش رہے۔ یونہی  اگر پورے چھ ماہ پر بچے کی ولادت ہو تو اس بچے کا نسب مرد سے ثابت ہوگا اس احتمال کی بنا پر کہ مرد نے نکاح کرتے ہی وطی کی اور نکاح کے دن ہی انزال ہو کر حمل ٹھہر گیا اور  نسب کے اثبات میں احتیاط سے کام لیا جاتا ہے۔ (فتح القدير على الهداية، کتاب الطلاق، باب ثبوت النسب، ج 04، ص 358، دار الفکر، لبنان)

بہارِ شریعت میں ہے:” کسی عورت سے زنا کیا پھر اُس سے نکاح کیا اور چھ مہینے یا زائد میں بچہ پیدا ہوا تو نسب ثابت ہے اور کم میں ہوا تو نہیں اگرچہ شوہر کہے کہ یہ زنا سے میر ا بیٹا ہے۔“(بہارِ شریعت، ج02، ص 251، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ "فتاوٰی امجدیہ" میں ایک سُوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: ”یہ لڑکا اگر وقتِ نکاح سے چھ مہینہ یا زیادہ میں پیدا ہوا ہے تو اسے ولد الزنا نہیں کہہ سکتے، اور چھ ماہ سے کم میں پیدا ہواہے تو ناجائز اولاد ہے یعنی اللہ بخش کا لڑکا نہیں قرار پائے گا۔ “(فتاوٰی امجدیہ، ج02، ص 295، مکتبہ رضویہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13741

تاریخ اجراء: 14رمضان المبارک 1446 ھ/15مارچ  2025  ء