رشتہ کے وقت لڑکی والوں کا پیسوں کی ڈیمانڈ کرنا کیسا؟

رشتہ کے وقت  لڑکی والوں کا پیسوں کی ڈیمانڈ کرنا کیسا؟

مجیب:مولانا فرحان احمد عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-2015

تاریخ اجراء:04 ربیع الآخر 1446 ھ/08 اکتوبر 2024 ء

دار الافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   لڑکی کا رشتہ لیتے وقت لڑکی والوں کی طرف سے اگر پیسوں کی ڈیمانڈ ہو، تو کیا دولہے والےپیسے دے سکتے ہیں لڑکی والوں کو؟ یہ جائز ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

   رشتہ دینے کے عوض رقم کا مطالبہ کرنا اور اس رقم کے بدلے رشتہ دینا ناجائز و حرام ہے کہ یہ رشوت ہےاور رشوت کا لین دین کرنا حرام  و گناہ ہے۔ ایسی رقم  واپس کرنا ضروری ہے۔

   بحر الرائق میں ہے: ’’لو خطب امرأۃ فی بیت اخیھا فابی الاخ الا ان یدفع  الیہ دراھم فدفع ثم تزوجھا کان للزوج ان یسترد مادفع لہ‘‘ یعنی اگرآدمی نے ایسی عورت کو نکاح کا پیغام دیاجو اپنے  بھائی  کے گھر ہے، بھائی  اسی صورت میں بہن کا  نکاح اس  سے کرنے پر راضی تھا کہ وہ اس کو دراہم دے، آدمی نےدراہم دے دئے اور لڑکی سے  نکاح کرلیا، تو شوہر کو دئے ہوئے دراہم واپس لینے کا اختیار ہے۔(البحر الرائق، جلد 3، صفحہ 324، مطبوعہ کوئٹہ)

   اس پر علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ’’ای  قائما او ھالکالانہ رشوۃ‘‘ یعنی دیا ہوا مال باقی ہو خواہ ختم ہو چکا ہو بہر صورت آدمی کو واپس لینے کا اختیار ہوگاکہ یہ رشوت ہے۔(منحۃ الخالق علی البحر، جلد 3، صفحہ 324، مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوٰیٰ خیریہ  میں ہے: ”سئل فی امرأۃ ابیٰ اقاربھا ان یزوجوھا الا ان یدفع لھم الزوج کذا  فوعدھم بہ ھل یلزم ام لا اجاب لا یلزم ولو دفع فلہ ان یأخذہ   قائما او ھالکالانہ رشوۃ‘‘ یعنی ایک ایسی عورت کے متعلق سوال ہوا جس کے رشتہ دار  اس عورت  کا نکاح صرف   اس صورت میں کروانے پر راضی ہوتے ہیں کہ شوہر ان کو مخصوص  رقم دے، پس شوہر نے انہیں مطلوبہ رقم دینے کا وعدہ کرلیا   تو شوہر پر وہ رقم  دینا لازم ہے یا نہیں؟ جواب ارشاد فرمایا کہ    شوہر پر یہ رقم لازم نہ ہوگی،اور اگر اس نے دے دی تو اسے واپس لینے کا اختیار ہے خواہ رقم  باقی ہو یا ختم ہو چکی ہو کیونکہ یہ رشوت ہے۔ (فتاویٰ خیریہ، جلد 1، صفحہ 28، مطبوعہ بولاق مصر)

   سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ”اگر وُہ روپیہ دینے والا اس لئے دیتا ہے کہ اس کے لالچ سے میرے ساتھ نکاح کردیں جب تو وہ رشوت ہے اس کا دینا لینا سب ناجائز وحرام۔ یُوں ہی اگر اولیائے عورت نے کہاکہ اتنا روپیہ ہمیں دے تو تجھ سے نکاح کردیں گے ورنہ نہیں جیسا کہ بعض دہقانی جاہلوں میں کفار ہنود سے سیکھ کر رائج ہے  تو یہ بھی رشوت و حرام ہے۔“ (فتاویٰ رضویہ۔ ملتقطاً، جلد 12، صفحہ 284، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   صدر الشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:” لڑکی والوں نے نکاح یا رخصت کے وقت شوہر سے کچھ لیا ہو یعنی بغیر ليے نکاح یا رخصت سے انکار کرتے ہوں اور شوہر نے دے کر نکاح یا رخصت کرائی تو شوہر اس چیز کو واپس لے سکتا ہے اور وہ نہ رہی تو اس کی قیمت لے سکتا ہے کہ یہ رشوت ہے۔“(بہار شریعت، جلد 2، صفحہ 79، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم