Meher Ki Kam Se Kam Miqdar Se Bhi Kam Meher Muqarrar Kiya To Hukum

 

مہر کی کم سے کم مقدار سے بھی کم مہر مقرر کیا تو کیا حکم ہے؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری

فتوی نمبر: Nor-13623

تاریخ اجراء: 26جمادی الاولی 1446 ھ/29نومبر  2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگرنکاح میں دس درہم سے کم  حق مہر مقرر کیا جائے، تو کیا اس صورت میں وہ نکاح منعقد ہوجائے گا؟ نیز حق مہر کتنا ادا کرنا ہوگا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مہر کی کم سے کم مقدار دس درہم یعنی دو تولے ساڑھے سات ماشے ( 30.618 گرام ) چاندی ہے، اس سے کم مہر مقرر کرنے کی صورت میں بھی دس درہم مہر ہی واجب ہوگا، مثلاً مہر کی کم از کم مقدار روپے میں 10,000تھی، لیکن فریقین نے 5,000 حق مہر مقرر کیا، تو اس صورت میں 10,000 حق مہر ادا کرنا مرد پر لازم ہوگا۔ البتہ شرعی مقدار سے کم مہر مقرر کرنے کی صورت میں نکاح منعقد ہوجائے گا، بشرطیکہ نکاح منعقد ہونے کی  دیگر تمام تر شرائط پائی جائیں۔

   دس درہم سے کم مہر مقرر کرنے کی صورت میں پورا دس درہم مہر واجب ہوگا، جیسا کہ علامہ علاء الدین ابو بکر بن مسعود کاسانی علیہ الرحمۃ(متوفی:587ھ) "بدائع الصنائع"  میں اس کے متعلق فرماتے ہیں:”فإن كان المسمى أقل من عشرة يكمل عشرة عند أصحابنا الثلاثة “ یعنی :مہر اگر دس درہم سے کم مقرر کیا جائے تو ہمارے تینوں ائمہ علیہم الرحمۃکے نزدیک اس صورت میں  دس درہم تک مہر پورا کیا جائے گا۔(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، کتاب النکاح، ج 02، ص 276، دار الكتب العلميہ، بیروت)

   تنویر الابصار مع الدر المختار میں اس سے متعلق مذکور ہے:”( وتجب) العشرة (إن سماها أو دونها )“یعنی : مہر اگر دس درہم مقرر کیا یا اس سے کم مہر مقرر کیا، تو ان دونوں ہی صورتوں میں دس درہم مہر واجب ہوگا۔(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب النکاح، ج 04، ص 222، مطبوعہ کوئٹہ)

(أو دونها )کے تحت علامہ سیداحمدطحطاوی(متوفی:1231ھ) "حاشیۃ الطحطاوی علی الدر" میں فرماتے ہیں: إنما لم يجب مهر المثل في تسمية ما دون العشرة؛ لأن المهر فيه حقان، حقها وهو ما زاد على العشرة إلى مهر مثلها، وحق الشرع وهو العشرة، فإذا أسقطت حقها برضاها بما دون العشرة بقي حق الشرع، فوجب تكميلها قضاء لحقه، انتهى «نهر» مختصر ترجمہ: ”دس درہم سے کم مہر مقرر کرنے کی صورت میں مہرِ مثل واجب نہیں ہوگا، کیونکہ مہر میں دو حقوق ہیں: ایک عورت کا حق ہے اور وہ مہر کا دس درہم سے زائد مہر مثل تک ہونا ہے، جبکہ دوسرا شریعت  کا حق ہے، جو کہ کم از کم دس درہم ہے۔ اب اگر عورت اپنی رضا مندی سے دس درہم سے کم مہر کو قبول کر لے، تب بھی شریعت کا حق باقی ہے، لہذا اُس کم از کم مہر کی تکمیل ضروری ہے ، تاکہ شریعت کا حق پورا ہو سکے،الخ۔  یہی بات "نہر"میں منقول ہے۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، کتاب النکاح، باب المھر، ج 04، ص 167، دار الكتب العلميہ، بیروت)

   بہارِ شریعت میں ہے:”نکاح میں دس ۱۰ درہم یا اس سے کم مہر باندھا گیا ،تو دس ۱۰ درہم واجب اور زیادہ باندھا ہو تو جو مقرر ہوا واجب۔“(بھارِ شریعت، ج 02، ص 65، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   مہر کی کم از کم مقدار بیان کرتے ہوئے مفتی جلال الدین امجدی علیہ الرحمۃ فتاویٰ فقیہ ملت میں ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: ”دس درہم کی موجودہ حیثیت دو تولہ ساڑھے سات ماشہ چاندی کے برابر جو کہ موجوددہ وزن کے حساب سے 30 گرام 618 ملی گرام ہے۔“(فتاوٰی  فقیہ ملت، ج 01، ص 421، شبیر برادرز، لاھور)

   مفتی عبد المنان اعظمی علیہ الرحمۃ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:” صورتِ مسئولہ میں زید کا نکاح ہندہ کے ساتھ ہوگیا۔ مہر میں تین بھر ڈیڑھ ماشہ چاندی یا اس کی قیمت واجب ہوتی ہے۔ ہدایہ میں ہے: "ولو سمی اقل من عشرۃ فلھا العشرۃ"(فتاویٰ بحر العلوم ، ج 02، ص 303، شبیر برادرز، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم