Napaki Ki Halat Mein Nikah Ka Hukum

 

ناپاکی(جنابت) کی حالت میں نکاح کا حکم

مجیب:مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3429

تاریخ اجراء: 01رجب المرجب 1446ھ/02جنوری2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ناپاکی (جنابت )  کی حالت میں نکاح منعقد ہو جاتا ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جب تمام شرائط کی موجودگی میں ایجاب وقبول ہوجائے تونکاح منعقدہوجاتاہے ،اوراس کی شرائط میں کہیں پاک ہونامذکورنہیں ہے ،ایجاب وقبول ناپاکی کی حالت میں بھی ہوسکتاہے لہذا  نکاح کی دیگر شرائط  کی موجودگی میں  ناپاکی (جنابت ) کی حالت میں ایجاب وقبول  کرنے سے نکاح منعقد ہوجاتا ہے،لیکن یہ یادرہے کہ اگر  نکاح کا اہتمام مسجد میں ہو تو  جنابت کی حالت میں مسجد کے اندر نہیں جا سکتے کہ یہ حرام ہے ۔

   نیز یہ مسئلہ ذہن نشین رہے کہ جس پر غسل فرض ہو، اسے بلاوجہ نہانے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے کہ حدیث پاک میں ہے: جس گھر میں جنبی  (یعنی بے غسلا شخص)   ہو ،اس میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے، بہتر یہی ہےکہ جلد از جلد غسل کرلیا جائے، اور  غسل میں اتنی تاخیر کرنا کہ  نماز قضاء ہوجائے،یہ حرام و گناہ ہے۔

   نیز یہ بھی یاد رہے کہ اگر عورت کی ماہواری کے دن ہوں تو اگرچہ اس حالت میں نکاح تو ہوجائے گا ، لیکن اس حالت میں عورت کے ناف کے نیچے سے گھٹنے کے نیچے تک کے حصے کوبغیرکسی موٹے حائل کے چھونا(خواہ شہوت سے ہویابغیرشہوت کے ) ناجائز و گناہ ہے ، اسی طرح اتنے حصے کوشہوت کے ساتھ دیکھنابھی گناہ ہے ۔ہاں اس  حدسے اوپر اورنیچے کے حصے سے فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔

   ایجاب و قبول سے نکاح منعقد ہوجاتا ہے،ہدایہ میں ہے”النكاح ينعقد بالإيجاب والقبول “ترجمہ: ایجاب اور قبول کے ذریعے نکاح منعقد  ہوجاتا ہے۔ (الھدایۃ،جلد 01،صفحہ 185،دار احیاء التراث العربی،بیروت)

   نکاح منعقد ہونے کے لئے گواہوں کا ہونا ضروری ہے،ہدایہ میں ہے”ولا ينعقد نكاح المسلمين إلا بحضور شاهدين حرين عاقلين بالغين مسلمين رجلين أو رجل وامرأتين“ترجمہ:دو مسلمانوں کا نکاح منعقد نہیں ہو گا مگر دو ایسے گواہوں کی موجودگی میں کہ دونوں آزاد ہوں، سمجھدار ہوں، بالغ ہوں، مسلمان ہوں، دونوں مرد ہوں یا ایک مرد اور دو عورتیں ہوں۔(الھدایۃ،جلد  01،صفحہ 185، دار احياء التراث العربي ، بيروت)

   جنبی کے پاس رحمت کے فرشتے نہیں آتے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”إن الملائكة لا تحضر جنازة كافر بخير، ولا جنبا حتى يغتسل أو يتوضأ وضوءه للصلاة“ ترجمہ:بےشک فرشتے کافر مردے کے پاس بھلائی کے ساتھ حاضر نہیں ہوتے اور جنبی شخص کے پاس بھی نہیں آتے جب تک وہ غسل نہ کر لے یا نماز جیسا وضو نہ کر لے۔(مصنف عبد الرزاق، رقم الحدیث 1087، ج1، ص 281، المجلس العلمي، الهند)

   جس کو نہانے کی ضرورت ہو اس کو مسجد میں جانا حرام ہے،صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں :"جس کو نہانے کی ضرورت ہو، اس کو مسجد میں جانا، طواف کرنا۔۔۔حرام ہے۔"(بہارِ شریعت،جلد1، حصہ2، صفحہ326 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

   فرض غسل میں  تاخیر کرنے کے متعلق  صدر الشریعہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ  فرماتے ہیں:"جس پر غسل واجب ہے اسے چاہیے کہ نہانے میں تاخیر نہ کرے۔ حدیث میں ہے: جس گھر میں جنب ہو اس میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے  اور اگر اتنی دیر کر چکا کہ نماز کا آخر وقت آگیا تو اب فوراً نہانا فرض ہے، اب تاخیر کرے گاگنہگار ہو گا۔"(بہارِ شریعت، جلد1،حصہ2، صفحہ 325،326، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   فتاوی رضویہ میں ہے "حالتِ حیض ونفاس میں ز یر ناف سے زانو تک عورت کے بدن سے بلاکسی ایسے حائل کے جس کے سبب جسم عورت کی گرمی اس کے جسم کو نہ پہنچے تمتع جائز نہیں یہاں تک کہ اتنے ٹکڑے بدن پر شہوت سے نظر بھی جائز نہیں اور اتنے ٹکڑے کا چھُونا بلاشہوت بھی جائز نہیں اور اس سے اوپر نیچے کے بدن سے مطلقاً ہر قسم کا تمتع جائز۔"(فتاوی رضویہ،ج 4،ص 353،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم