Nikah ke liye Aurat Kharidna Ya Waldain ko Paise Dena Kaisa?

نکاح کے لیے عورت کو خریدنا یا والدین کو پیسے دینا کیسا؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:FAM-488

تاریخ اجراء:19 محرم الحرام6144ھ/26 جولائی2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ  کیا عورت کو خرید کر نکاح کرسکتے  ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   آزاد شخص چاہے مرد ہو یا عورت اس کی بیع  باطل ہے، کیونکہ  بیع  میں   مال  کا  مال سے تبادلہ کیا جاتا ہے،جبکہ آزاد شخص  مال نہیں،لہذا  جب آزاد عورت مال ہی نہیں،تو اس کی بیع  بھی  باطل ہے،لہذا  کسی عورت سے نکاح کرنے کیے لیےاُسے  خرید نا ناجائز و حرام اور گناہ   کا کام ہے،اس کی ہرگز اجازت نہیں۔پھراگر  یہ خریدو فروخت برائے نام ہو  اور اصل  مقصدلڑکی کے نکاح کے بدلے  اس کے گھر والوں کو ان کے مطالبے پر   رقم دینا  ہو،تو لڑکی کے والدین  کا  نکاح کے لیےرقم کا مطالبہ کرنا،اور   لڑکے یا اس کے والدین کا انہیں  نکاح کی خاطر  رقم دینا   شرعاًناجائزو حرام  اور گناہ  ہے، کیونکہ فقہائے کرام نے اُسے رشوت قرار دیا ہے،اور یہ رقم وصول کرنے والے کی ملکیت میں نہیں آئے گی، بلکہ ایسا مال بدستور دینے  والے کی ملکیت میں رہےگا، جو اس کو  واپس کرنا لازم ہے،البتہ مذکورہ دونوں صورتوں میں اگر کسی نے ایسا کرکے عورت سے نکاح کرلیا،تو اگرچہ وہ گنہگار ہوگا،لیکن   اگر   نکاح کی تمام   شرائط   پائی  گئیں، تو نکاح بہرحال ہوجا ئے گا،اس سے نکاح کے جواز  پر فر ق نہیں پڑے گا۔

   صحیح بخاری شریف کی حدیث مبارک ہے:’’عن أبی هريرة رضی اللہ عنه، عن النبی صلى اللہ عليه وسلم، قال:قال اللہ تعالی: ثلاثۃ انا خصمھم یوم القیامۃ رجل اعطی بی ثم غدر، ورجل باع حرا  فأكل ثمنہ، ورجل استاجر اجیرا فاستوفی منہ ولم یعطہ اجرہ“ترجمہ:  حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں،فرمایا کہ  اللہ  تعالیٰ نے ارشاد فرمایا  کہ تین طرح کے لوگ ایسے ہیں کہ قیامت کے دن میں ان کا مد مقابل بنوں گا: ایک وہ شخص جس نے میرے نام کا عہد کیا اور پھر توڑ دیا،   ایک وہ شخص جس نے کسی آزاد کو بیچ کر اس کی قیمت کھالی، اور ایک وہ شخص جس نے   کسی کو مزدوری پر رکھا،پھر اس سے کام تو پورا لے لیا،لیکن اس کی  مزدوری اسے نہ دی۔(صحیح البخاری، جلد3،کتاب البیوع، باب اثم من باع حرا، صفحہ82،رقم الحدیث2227، دار طوق النجاة) 

   اس حدیث مبارک کی  شرح میں علامہ  بدرالدین عینی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”ومن باع حرا فقد منعہ التصرف فیما اباح اللہ تعالی لہ والزمہ حال الذلۃ والصغار ، فھو  ذنب عظیم ینازع   اللہ  تعالی  بہ فی عبادہ“ ترجمہ:  جس نے آزاد شخص کو بیچا،  تو اس نے ان تمام تصرفات سے اس کو روک دیا جو اللہ رب العزت  نے اس کے لیے مباح  فرمائے تھے، اور اسے ذلت و پستی میں ڈال دیا، تو یہ  عمل    بہت بڑا گناہ ہے، گویا کہ یہ شخص اللہ رب العزت سے اس کے بندوں کے معاملے میں   منازعہ کر رہا ہے۔(عمدۃ القاری شرح  صحیح البخاری ، جلد 12 ، صفحہ 42، دار إحياء التراث العربي ، بيروت)

   آزاد شخص کی بیع کے  باطل ہونے کے متعلق علامہ برہان الدین علی    بن ابو بکر الفرغانی   رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”البیع بالمیتۃ والدم باطل ، کذا بالحر لانعدام رکن البیع ، وھو مبادلۃ المال بالمال فان ھذہ الاشیاء لا تعد مالا عند احد“ ترجمہ: مردار اور خون کی بیع یونہی آزاد کی بیع  باطل ہے ، بیع کے رکن کے نہ پائے جانے کی وجہ سے،(وہ رکن) مال کا مال سے تبادلہ ہے، کیونکہ یہ اشیاء کسی کے نزدیک بھی مال شمار نہیں کی جاتیں۔(ھدایہ، جلد3، باب بیع الفاسد، صفحہ42، دار احياء التراث العربی، بيروت)  

   تبیین الحقائق میں ہے:”والاصل فیہ ان بیع ما لیس بمال عند احد کالحر والدم والمیتۃ و ام الولد والمکاتب باطل“ ترجمہ:   اس باب میں اصول یہ ہے کہ   ہر وہ چیز جو کسی کے نزدیک مال نہیں اس کی بیع باطل ہے، جیسے   آزاد، خون، مردار، ام ولد  اور مکاتب کی بیع۔(تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، جلد4، صفحہ362، مطبوعہ کوئٹہ)

   مفتی اعظم پاکستان مفتی وقار الدین رحمۃ اللہ علیہ وقار الفتاوی میں  ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:’’حرہ یعنی آزاد عورت محل بیع نہیں  ہےکہ دور غلامی ختم ہوچکا۔۔۔لہذا اس مذموم فعل کو ترک  کردینا چاہئے۔۔۔اسلام میں اس طرح کے فعل کی کوئی گنجائش نہیں۔‘‘(وقار الفتاوی،جلد3،صفحہ96،مطبوعہ بزم وقار الدین)

     لڑکی کے  نکاح کے بدلے، لڑکے یا اس کے والدین سے  رقم   وصول کرنارشوت ہے،چنانچہ فتاوی عالمگیری  میں ہے:”خطب امرأۃ فی بیت اخیھا فابی ان یدفعھا حتی یدفع دراھم فدفع و تزوجھا یرجع بما دفع لانھا رشوۃ“ترجمہ :عورت کو  جو اپنے بھائی کے گھر میں تھی، کسی شخص نے نکاح کا  پیغام بھیجا، تو اس کے بھائی نے نکاح سے انکار کردیا،تاکہ اس کو کچھ دراہم دیئے جائیں، تو اس شخص نے دراہم دیئے اور عورت سے نکاح کرلیا،تو جو دراہم اس نے دیئے وہ واپس لے،کیونکہ وہ رشوت ہے۔(الفتاوی الھندیہ، جلد4، الباب الحادی عشر فی المتفرقات،صفحہ403، دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   امام اہلسنت سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان  علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں:”اگر وُہ روپیہ دینے والا اس لئے دیتا ہے کہ اس کے لالچ سے میرے ساتھ نکاح کردیں، جب تو وہ رشوت ہے،اس کا دینا لینا سب ناجائز وحرام،ہندیہ میں ہے کہ مرد نے کسی عورت کو اس طمع پر خرچہ دیا کہ وہ اس سے نکاح کرے گی،تو امام استاذ (قاضی خاں) نے فرمایا کہ اصح یہی ہے کہ وُہ اس عورت سے واپس لے سکتا ہے وہ عورت اس سے نکاح کرے یا نہ کرے کیونکہ یہ رشوت ہے،یُوں ہی اگر اولیائے عورت نے کہاکہ اتنا روپیہ ہمیں دے ،تو تجھ سے نکاح کردیں گے ورنہ نہیں جیسا کہ بعض دہقانی جاہلوں میں کفار ہنود سے سیکھ کر رائج ہے،تو یہ بھی رشوت و حرام ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد12، صفحہ285، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   صدر الشریعہ بدرالطریقہ  مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ  اللہ علیہ  بہار شریعت  میں لکھتے ہیں: ” لڑکی والوں نے نکاح یا رخصت کے وقت شوہر سے کچھ لیا ہو یعنی بغیر ليے نکاح یا رخصت سے انکار کرتے ہوں اور شوہر نے دے کر نکاح یا رخصت کرائی تو شوہر اس چیز کو واپس لے سکتا ہے اور وہ نہ رہی تو اس کی قیمت لے سکتا ہے کہ یہ رشوت ہے۔(بھار شریعت، جلد2،حصہ7، صفحہ 79، مکتبۃ المدینہ، کراچی) 

   مفتی اعظم پاکستان مولانا  وقار الدین رحمۃ اللہ علیہ   وقار الفتاوی میں فرماتے ہیں:”لڑکی کے باپ کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی لڑکی سے نکاح کرنے کے لیے شوہر سے یا اس کے والد سے کسی قسم کی رقم کا مطالبہ کرے۔“(وقار الفتاوی، جلد3، صفحہ104، مطبوعہ بزم وقار الدین، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم