
مجیب:مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3457
تاریخ اجراء: 05رجب المرجب 1446ھ/06جنوری2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
نکاح کے وقت یہ لکھنا کہ میں ہونے والی بیوی کو حج کرواؤں گا،کیایہ ٹھیک ہےیانہیں ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگر حق مہر کےطور پر یہ بات لکھوائی جائےکہ شوہربیوی کو حق مہر میں حج کروائے گااوراس کے علاوہ کوئی اورایسی چیزکوحق مہرنہ رکھاجائےکہ جوحق مہربن سکتی ہوتویہ درست نہیں کیونکہ حج کروانا حق مہرنہیں بن سکتا،لہذااگرصرف اسی کوحق مہرکے طورپرلکھوایاگیاتو ایسی صورت میں مہر مثل واجب ہوگا(یعنی عورت کےخاندان میں اس جیسی عورت کاجومہرہووہی اس کاقرارپائے گا)۔ اور اگر حق مہر علیحدہ سے اس چیزکا مقرر کیا گیاکہ جوشرعاحق مہربن سکتی ہے، اور پھرساتھ میں علیحدہ سے یہ بات لکھوائی گئی کہ شوہر،بیوی کوحج کروائے گا تو اس میں حرج نہیں ۔
بہارِ شریعت میں ہے”جو چیز مال متقوم نہیں وہ مَہرنہیں ہو سکتی اور مہر مثل واجب ہوگا، مثلاً مہر یہ ٹھہرا کہ آزاد شوہر عورت کی سال بھر تک خدمت کرے گا یا یہ کہ اسے قرآن مجید یا علمِ دین پڑھا دے گا یا حج و عمرہ کرا دے گا یا مسلمان مرد کا نکاح مسلمان عورت سے ہوا اور مہر میں خون یا شراب یا خنزیر کا ذکر آیا یا یہ کہ شوہر اپنی پہلی بی بی کو طلاق دے دے تو ان سب صورتوں میں مہرِ مثل واجب ہوگا۔ “ (بہارِ شریعت، حصہ7 ،صفحہ65-66 ،مکتبۃ المدینہ، کراچی )
مہرمثل کی تفصیل بہارشریعت میں یوں ہے " عورت کے خاندان کی اس جیسی عورت کا جو مہر ہو، وہ اس کے ليے مہرِ مثل ہے، مثلاً اس کی بہن، پھوپی، چچا کی بیٹی وغیرہا کا مہر۔ اس کی ماں کا مہر اس کے ليے مہر مثل نہیں جبکہ وہ دوسرے گھرانے کی ہو اور اگر اس کی ماں اسی خاندان کی ہو، مثلاً اس کے باپ کی چچا زاد بہن ہے تو اس کا مہر اس کے ليے مہر مثل ہے اور وہ عورت جس کا مہر اس کے ليے مہر مثل ہے وہ کن امور میں اس جیسی ہو ان کی تفصیل یہ ہے:
عمر ، جمال ، مال میں مشابہ ہو، دونوں ایک شہر میں ہوں، ایک زمانہ ہو، عقل و تمیز و دیانت و پارسائی و علم و ادب میں یکساں ہوں، دونوں کوآری ہوں یا دونوں ثیب، اولاد ہونے نہ ہونے میں ایک سی ہوں کہ ان چیزوں کے اختلاف سے مہرمیں اختلاف ہوتا ہے۔ شوہر کا حال بھی ملحوظ ہوتا ہے، مثلاً جوان اور بوڑھے کے مہر میں اختلاف ہوتا ہے۔ عقد کے وقت ان امور میں یکساں ہونے کا اعتبار ہے، بعد میں کسی بات کی کمی بیشی ہوئی تو اس کا اعتبار نہیں، مثلاً ایک کا جب نکاح ہوا تھا اس وقت جس حیثیت کی تھی، دوسری بھی اپنے نکاح کے وقت اسی حیثیت کی ہے مگر پہلی میں بعد کو کمی ہوگئی اور دوسری میں زیادتی یا برعکس ہوا تو اس کا اعتبار نہیں۔ اگر اس خاندان میں کوئی ایسی عورت نہ ہو، جس کا مہر اس کے ليے مہرِ مثل ہوسکے تو کوئی دوسرا خاندان جو اس کے خاندان کے مثل ہے اس میں کوئی عورت اس جیسی ہو، اُس کا مہر اس کے ليے مہرِمثل ہوگا۔"(بہارِ شریعت، حصہ7 ،صفحہ71،72،مکتبۃ المدینہ، کراچی )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم