
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FSD-9143
تاریخ اجراء:19 ربیع الثانی 1446ھ/ 23 اکتوبر 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ لڑکے ، لڑکی کا نکاح گھر والوں کی رضا مندی سے ہوا، فیملی کے کچھ افراد اور گواہان بھی موجود تھے، حق مہر بھی مقرر کیا گیا، لیکن نکاح کو رجسٹرڈ نہیں کروایا گیا، حالانکہ نکاح رجسٹرڈ کروانا بھی ضروری ہوتا ہے، اب اولاد بھی ہو چکی ہے، سوال یہ ہے کہ نکاح رجسٹرڈ نہ کروانے کی وجہ سے نکاح پر کوئی اثر پڑے گا؟ اور کیا جو اولاد پیدا ہوئی وہ ثابت النسب ہی ہوگی؟ اس پر تو کوئی حکم نہیں آئے گا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
قوانینِ شرعیہ کے مطابق نکاح شرعی گواہوں (دو عاقل و بالغ مسلمان مردوں یا ایک مرد اوردو عورتوں)کی موجودگی میں لڑکا، لڑکی یا ان کی طرف سے ان کے وکیل کے ایجاب و قبول کر لینے سے منعقد ہو جاتا ہے، نکاح کے منعقد ہونے کے لیے شرعاً نکاح فارم کا ہونا یا اسے رجسٹرڈ کروانا ضروری نہیں، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں شرعاً نکاح ہو گیا، نکاح رجسٹرڈ نہ کروانے کی وجہ سے نکاح یا اولاد پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا، اولاد ثابت النسب ہی کہلائے گی۔
یاد رہے! نکاح رجسٹرڈ کروانا، اگرچہ شرعاً ضروری نہیں، لیکن نکاح رجسٹریشن کا نظام بہت سی مصلحتوں کے پیشِ نظر بنایا گیا ہے، جس کے ذریعے انسان مستقبل میں پیش آنے والی بہت سی مشکلات سے بچ سکتا ہے، لہٰذا قانونی طور پر بھی نکاح کو ضرور رجسٹرڈ کروانا چاہیے۔
نکاح گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کا نام ہے، چنانچہ علامہ بُر ہانُ الدین مَرْغِینانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:593ھ/1196ء) لکھتے ہیں: ”النكاح ينعقدبالايجاب والقبول... ولاينعقدنكاح المسلمين الابحضورشاهدين حرين عاقلين بالغين مسلمين رجلين اورجل وامراتين “ترجمہ:نکاح ایجاب و قبول کےساتھ منعقدہوجاتاہےاورمسلمانوں کانکاح دو آزاد،عاقل،بالغ، مسلمان گواہوں کی موجودگی میں منعقد ہوتا ہے، وہ گواہ دو مردہوں، خواہ ایک مرداوردوعورتیں ہوں۔(الھدایۃ،کتاب النکاح، جلد2، صفحہ325، 326، مطبوعہ لاھور)
فتاوی عالمگیری میں ہے: ”واماركنه فالايجاب والقبول“ ترجمہ: نکاح کارکن ایجاب وقبول ہے۔(فتاوی عالمگیری، کتاب النکاح، الباب الاول، جلد1، صفحہ267، مطبوعہ کوئٹہ)
امامِ اہلِ سنَّت ، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) سےسوال ہواکہ نکاح قبول کر لینے سے ہی جائز ہو جائے گا یا کوئی اور بات (بھی ضروری ہے)؟ توآپ علیہ الرحمۃنےارشادفرمایا: ”نکاح کےلئےفقط مردوعورت کاایجاب وقبول چاہئےاوردومردیاایک مرد دوعورتوں کااسی جلسہ میں ایجا ب وقبول کوسننا اورسمجھناکہ یہ نکاح ہورہاہے،بس اسی قدردرکارہے،اس سےزیادہ قاضی وغیرہ کی حاجت نہیں۔“(فتاوی رضویہ، جلد 11، صفحہ181، مطبوعہ رضافاؤنڈیشن،لاھور)
فی زمانہ نکاح کی رجسٹریشن بھی ضرور کروائی جائے، چنانچہ امامِ اہلِ سنَّت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں: ”یہ نکاح خواں قاضی نہ شرعاً ضروری ہیں،نہ اِن کے رجسٹرکی شرعاً حاجت، ہاں اندراج میں مصلحت ہے۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد 11، صفحہ287، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم