کئی سال بعد مہر کی ادائیگی کا صحیح طریقہ

کئی سال بعد مہر ادا کرنے میں کس ریٹ کا اعتبار ہوگا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

میری شادی 1998 میں ہوئی تھی اور اس وقت میری بیوی کی حق مہر کی رقم گیارہ ہزار روپے قرار پائی تھی مگر لاپرواہی و سستی کی و جہ سے وہ ادا نہیں کر سکا لیکن میں اب اپنی بیوی کو وہ رقم دینا چاہتا ہوں، میری شادی کو تقریبا ستائیس سال ہوچکے ہیں، پوچھنا یہ تھا کہ مجھے وہی رقم گیارہ ہزار ادا کرنا ہوگی یا زائد رقم ادا کرنا ہوگی؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

شریعتِ مطہرہ میں مہر کی کم سے کم مقدار دس درہم یعنی دو تولہ ساڑھے سات ماشہ چاندی یا اس کی قیمت ہے اور زیادہ کی کوئی حد نہیں، جتنا بھی مقرر کر دیا جائے لازم ہوگا۔ نیز اس میں اعتباروقتِ عقدکا ہے، لہٰذا وقتِ عقد جو مہر مقرر ہوا، وہ دس درہم یا اس سے زیادہ قیمت کا ہو، تو وہی لازم ہوگا، مہنگائی کی وجہ سے اس میں زیادتی نہیں ہو گی۔

اور صورتِ مسئولہ میں بوقتِ نکاح مہر میں مقرر کی گئی رقم چوں کہ اس وقت دو تولہ ساڑھے سات ماشہ چاندی کی قیمت سے زیادہ تھی، لہٰذا آپ پر وہی گیارہ ہزار ہی دینا ضروری ہے، مہنگائی یا زیادہ عرصہ ہونے کی وجہ سے آپ پر اپنی بیوی کو مقرر کردہ مہر سے زیادہ دینا ضروری نہیں ہے، البتہ! آپ اپنی رضا مندی سے زیادہ دینا چاہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

تنویرالابصارودرمختارمیں ہے

"(اقلہ عشرۃ دراھم مضروبۃ کانت او لا) و لو دینا او عرضا قیمتہ عشرۃ وقت العقد۔ ملخصا۔"

ترجمہ: مہر کی کم از کم مقدار دس درہم ہیں، خواہ ڈھلے ہوئے ہوں یا بغیر ڈھلے ہوئے اگرچہ مہر دین کی صورت میں ہو یا کوئی سامان ہو، جس کی قیمت عقد کے وقت دس درہم ہو۔ (الدر المختار مع رد المحتار، جلد 4، صفحہ220، 222، مطبوعہ کوئٹہ)

علامہ محقق ابن عابدین الشامی علیہ الرحمہ درِمختار کی عبارت(قیمتہ عشرۃ وقت العقد)کے تحت ارشاد فرماتے ہیں:

”ای وان صارت یوم التسلیم ثمانیۃ فلیس لھا الا ھو“

یعنی اگرچہ ادائیگی کے دن قیمت آٹھ درہم ہوجائے، عورت (عقد کے وقت) ذکر کیے گئے ہی کی مستحق ہوگی۔ (الدر المختار مع رد المحتار، جلد 4، صفحہ 222، مطبوعہ کوئٹہ)

سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں: ”مہر شرعی کی کوئی تعداد مقرر نہیں، صرف کمی کی طرف حد معین ہے کہ دس درم سے کم نہ ہو اور زیادتی کی کوئی حد نہیں، جس قدر باندھا جائے گا، لازم آئے گا۔ ملخصا“ (فتاوٰی رضویہ، جلد 12، صفحہ 165، مطبوعہ رضا فاونڈیشن، لاھور)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں: ”اگر درہم کے سوا کوئی اور چیز مہر ٹھہری، تو اس کی قیمت عقد کے وقت دس درہم سے کم نہ ہو اور اگر اس وقت تو اسی قیمت کی تھی، مگر بعد میں قیمت کم ہوگئی ، تو عورت وہی پائے گی ، پھیرنے کا اسے حق نہیں۔“ (بہارشریعت، جلد 2، حصہ، صفحہ 64، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو شاہد مولانا محمد ماجد علی مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-3949

تاریخ اجراء: 24 ذو الحجۃ الحرام 1446 ھ / 21 جون 2025 ء