
مجیب:ابو شاھد مولانا محمد ماجد علی مدنی
فتوی نمبر:WAT-3510
تاریخ اجراء: 14رجب المرجب 1446ھ/15جنوری2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کسی شخص نے اگر معاذ اللہ اپنی ساس کے ساتھ زنا کیا تو اب کیا حکم ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگر معاذ اللہ کسی نے اپنی ساس کے ساتھ زنا کیا تو اس عمل کی وجہ سے حرمت مصاہرت ثابت ہو گئی اور اس کی بیوی اس پر ہمیشہ کے لئے حرام ہو گئی ،لہذا اب اس پر لازم ہے کہ وہ اس گناہ سے توبہ بھی کرے اور بیوی سے متارکہ بھی کرے مثلاً یوں کہے : میں نے تمہیں چھوڑ دیا "یا اسے طلاق دیدے ۔
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے” عن قتادة، عن الحسن، عن عمران بن الحصين في الرجل يقع على أم امرأته؟ قال: «تحرم عليه امرأته »“ترجمہ:حضرت قتادہ ،حضرت حسن سے روایت کرتے ہیں،اور وہ حضرت عمران بن حصین سے کہ ان سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جو اپنی بیوی کی ماں یعنی ساس سے زنا کرے ؟تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا:اس آدمی کی بیوی اس پر حرام ہو جائے گی۔(مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب النکاح،ج 3،ص 480، مكتبة الرشد ، الرياض)
التجرید للقدوری میں ہے” قال أصحابنا: الزنا يتعلق به تحريم المصاهرة فإذا زنا بامرأة حرمت عليه أمها وبنتها، وإذا زنا بأم امرأته أو بنتها وقعت الفرقة بينه وبين امرأته“ترجمہ:ہمارے اصحاب نے فرمایا:زنا سے بھی حرمت مصاہرت ثابت ہوگی،پس اگر کسی آدمی نے کسی عورت سے زنا کیا تو اس عورت کی ماں اور بیٹی ،اس آدمی پر حرام ہو جائیں گی اور جب کوئی آدمی اپنی بیوی کی ماں یا اس کی بیٹی سے زنا کرے تو اس آدمی اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی واقع ہو جائے گی۔(التجرید للقدوری،کتاب النکاح،مسئلۃ حرمة المصاهرة بالزنا،ج 9،ص 4449، دار السلام ، القاهرة)
سیدی اعلی حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے سوال ہوا کہ زید نے اپنی ساس سے زنا کیا ،اور اس زید کی بیوی کو اس کا علم تھا تو زید کی بیوی اس پر حرام ہوئی یا نہیں؟(ملتقطا)تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا: زوجہ زید اس پر حرام ہوگئی اگرچہ اسے اس واقعہ شنیعہ کا علم بھی نہ ہوتا۔۔۔اقول وباللہ التوفیق اس کی دلیل جلیل قول مولی عزوجل وتبارک وتعالی ہے:﴿وربائبکم الّٰتی فی حجور کم من نساء کم الّٰتی دخلتم بھن فان لم تکونوا دخلتم بھن فلا جناح علیکم ﴾(یعنی تم پر حرام کی گئیں تمہاری گود کی پالیاں ان عورتوں کی بیٹیاں جن سے تم نے صحبت کی پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو توتم پر کچھ گناہ نہیں) ۔۔۔ حاصل آیت کریمہ یہ کہ جس عورت سے تم نے کسی طرح صحبت کی اگرچہ بلانکاح اگرچہ بروجہ حرام، اس کی بیٹی تم پر حرام ہوگئی، یہی ہمارے ائمہ کرام کا مذہب ، اوریہی اکابر صحابہ کرام مثل حضرت امیر المومنین عمر فاروق وحضرت علامہ صحابہ عبداللہ بن مسعود وحضرت عالم القرآن عبداللہ بن عباس وحضرت اقر ؤ الصحابہ ابی بن کعب وحضرت عمران بن حصین وحضرت جابر بن عبداللہ وحضرت مفتیہ چار خلافت صدیقہ بنت الصدیق محبوبہ محبوبِ رب العالمین صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلیہم اجمعین وجماہیر ائمہ تابعین مثل حضرات امام حسن بصری و افضل التابعین سعید بن المسیب وامام اجل ابراہیم نخعی وامام عامر شعبی وامام طاؤس وامام عطا بن ابی رباح وامام مجاہد وامام سلیمن بن یسار وامام حماداور اکابرمجتہدین مثل امام عبدالرحمن اوزاعی وامام احمد بن حنبل و امام اسحق بن راہویہ اور ایک روایت میں امام مالک بن انس کا ہے رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین۔۔۔اس حرمت کے پیدا ہونے سے مرد وزن کو جدا ہوجانااورا س نکاح فاسد شدہ کا فسخ کردینا فرض ہوجاتا ہے مگرخود بخود نکاح زائل نہیں ہوجاتا، یہاں تک کہ شوہر جب تک متارکہ نہ کرے اور بعد متارکہ عدت نہ گزرے عورت کو روا نہیں کہ دوسرے سے نکاح کرے اور قبل متارکہ شوہر کا اس سے وطی کرنا حرام ہوتا ہے مگر زنا نہیں کہ نکاح باقی ہے، ولہٰذا اس وطی سے جو اولاد پیدا ہو صحیح النسب ہے ایسے نکاح کے ازالہ کو جو الفاظ کہے جائیں طلاق نہیں بلکہ متارکہ کہلاتے ہیں اگرچہ بلفظ طلاق ہوں یہاں تک کہ ان سے عدد طلاق کم نہیں ہوتا ۔ "(فتاوی رضویہ،ج 11،ص 353،354،355،356،365،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)
بہار شریعت میں ہے” متارکہ یہ ہے کہ اسے چھوڑ دے، مثلاً یہ کہے میں نے اسے چھوڑا، یا چلی جا، یا نکاح کر لے یا کوئی اور لفظ اسی کے مثل کہے۔" (بہار شریعت،ج 2،حصہ 7،ص 73،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم