
مجیب:مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3590
تاریخ اجراء:25شعبان المعظم 1446ھ/24فروری2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
ایک شخص نے معاذ اللہ اپنی سالی کے ساتھ زنا کرلیا ،تو کیا بیوی سے نکاح پر کوئی فرق پڑے گا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں سالی اوربہنوئی دونوں کبیرہ گناہ کے مرتکب ہوئے اوراس گناہ کے سبب عذاب الہی کے مستحق ہوئے، ان پرلازم ہے کہ اللہ کریم کی بارگاہ میں اس سے سچی توبہ کریں اور آئندہ اس کبیرہ گناہ سے باز رہیں اور شرعی احکام کے مطابق پردے کی مکمل پابندی کریں۔
تاہم !سالی کے ساتھ معاذ اللہ زنا کرنے کے سبب زوجہ مطلقہ نہیں ہوئی اور نکاح میں کوئی فرق نہیں آیا، جبکہ زنا کو حرام سمجھ کر ہی مرتکب ہوا ہو ۔ہاں اگر کسی نے سالی سے زنا کو حلال سمجھ کر کیا تو وہ کافر و مرتد ہو گیا ،اس کا نکاح ٹوٹ گیا ۔ یونہی اگر سالی سے شبہہ اور دھوکے میں وطی ہوجائے تو جب تک سالی اس وطی بالشبہہ کی عدت سے نہ نکلے ،مرد اپنی منکوحہ کو ہاتھ نہیں لگاسکتا ،یہ حرمت اتنے ہی دنوں کے لیے ہوگی ،اس کی عدت ختم ہوجانے کے بعد عورت بدستور حلال ہوجائےگی۔
نوٹ:یادرہے کہ عورت کا دیگر غیرمحارم کی طرح اپنے بہنوئی و دیور وغیرہ سے بھی پردہ کرنا لازم ہے بلکہ ان سے پردے میں زیادہ احتیاط ہونی چاہئے کہ رشتہ داری کی وجہ سے جھجک کم ہوتی ہے، جس کی وجہ سے فتنوں کا اندیشہ زیادہ رہتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ان سے پردے کی سخت تاکید بیان ہوئی ہے، یہاں تک کہ حدیثِ مبارک میں دیور کو موت قرار دیا گیا ہے۔اگر ان معاملات میں غفلت برتی جائے تو نوبت معاذ اللہ زنا تک پہنچ جاتی ہےاورزنا سخت حرام اور گناہ کبیرہ ہے ،جس کا مرتکب سخت گنہگاراور عذاب جہنم کا حق دار ہے،اور قرآن و حدیث میں اس کی شدید مذمت بیان ہوئی ہے۔
زنا کے متعلق قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً ؕ وَسَآءَ سَبِیۡلًا ﴿۳۲﴾) ترجمہ کنزالایمان:اور بد کاری کے پاس نہ جاؤ بیشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بری راہ۔(پ15،بنی اسرائیل :32)
صحیح بخاری میں حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث ہے کہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"رايتُ الليلة رجلين اتيانی فاخذا بيدي فاخرجانی الى الارض المقدسة ۔۔۔ فانطلقنا الى ثقبٍ مثل التنّور اعلاه ضيق واسفله واسعٌ يتوقّد تحته نارٌ فاذا اقترب ارتفعوا حتى كادوا ان يخرجوا فاذا خمدت رجعوا فيها وفيها رجال ونساء عراةٌفقلتُ: من هذا؟قالا:۔۔۔والذی رايتَه فی الثقب فهم الزناۃ"ترجمہ:میں نے رات کے وقت دیکھا کہ دو شخص میرے پاس آئے اور مجھےمقدس سر زمین کی طرف لے گئے(اس حدیث میں چند مشاہدات بیان فرمائے اُن میں ایک یہ بات بھی ہے کہ)ہم ایک سوراخ کے پاس پہنچےجو تنور کی طرح اوپر سے تنگ ہےاورنیچےسےکشادہ،اس میں آگ جل رہی ہے اوراس آگ میں کچھ مرد اور عورتیں برہنہ ہیں، جب آگ کا شعلہ بلند ہوتا ہے تو وہ لوگ اوپر آجاتے ہیں حتی کہ نکلنے کے قریب ہو جاتے ہیں اور جب شعلے کم ہوتے ہیں تو وہ بھی اندر چلے جاتے ہیں۔ میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ فرشتوں نے کہا ، جو لوگ آپ نے کنویں میں دیکھے تھے وہ یہ زانی مرد اور عورتیں ہیں۔ (صحیح بخاری، ، ج 01،ص465، دار ابن كثير، بيروت، ملتقطاً)
صحیح بخاری شریف اور دیگر کتبِ احادیث میں دیور سے پردے کی تاکید کچھ یوں مذکور ہے:”و النظم للاول ”عن عقبة بن عامر أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال " إياكم والدخول على النساء" فقال رجل من الأنصار يا رسول الله أفرأيت الحمو ؟ قال "الحمو الموت"۔“ یعنی حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ عورتوں کے پاس جانے سے بچو۔ انصار میں سے ایک شخص نے عرض کی یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم دیور کے متعلق ارشاد فرمایئے تو فرمایا :دیور تو موت ہے۔(صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب لا یخلون رجل۔۔۔الخ، ج 05، ص2005،دار ابن كثير، بيروت)
مذکورہ حدیث کے متعلق مراۃ المناجیح میں ہے:”یعنی بھاوج کا دیور سے بے پردہ ہونا موت کی طرح باعث ہلاکت ہے۔یہاں مرقات نے فرمایا کہ حمو سے مراد صرف دیور یعنی خاوند کا بھائی ہی نہیں بلکہ خاوند کے تمام وہ قرابت دار مراد ہیں جن سے نکاح درست ہے جیسے خاوند کا چچا ماموں پھوپھا وغیرہ ۔ اسی طرح بیوی کی بہن یعنی سالی اور اس کی بھتیجی بھانجی وغیرہ سب کا یہ ہی حکم ہے۔خیال رہے کہ دیور کو موت اس لیے فرمایا کہ عادتًا بھاوج دیور سے پردہ نہیں کرتیں بلکہ اس سے دل لگی،مذاق بھی کرتی ہیں اور ظاہر ہے کہ اجنبیہ غیر محرم سے مذاق دل لگی کسی قدر فتنہ کا باعث ہے۔اب بھی زیادہ فتنہ دیور بھاوج اور سالی بہنوئی میں دیکھے جاتے ہیں۔“(مرآۃ المناجیح، ج 05، ص 14، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور)
سالی سے زناکے متعلق جزئیات:
تنویر الابصار و در مختار میں ہے" وفي الخلاصة: وطئ أخت امرأته لا تحرم عليه امرأته"ترجمہ:خلاصہ میں ہے کہ سالی سے زنا کی وجہ سے بیوی حرام نہ ہوگی۔(تنویر الابصار و در مختار مع رد المحتار ،ج4 ،ص 113۔۔116، کوئٹہ)
رد المحتار میں ہے " وقوله: لا يحرم أي لا تثبت حرمة المصاهرة، فالمعنى: لا تحرم حرمة مؤبدة، وإلا فتحرم إلى انقضاء عدة الموطوءة لو بشبهة قال في البحر: لو وطئ أخت امرأة بشبهة تحرم امرأته ما لم تنقض عدة ذات الشبهة۔۔"ترجمہ:ردالمحتار میں ہے ماتن کے قول ''حرام نہیں'' کا مطلب یہ ہے کہ حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی تو معنی یہ ہے کہ حرمت ابدی نہیں ہوگی ورنہ سالی کے ساتھ شبہہ میں وطی سے اس کی بیوی عدت پوری ہونے تک حرام رہتی ہے۔ بحر میں کہاہے اگر سالی سے شبہہ کی بناپر وطی ہوجائے تو بیوی حرام رہتی ہے جب تک شبہہ والی وطی کی عدت پوری نہ گزرجائے۔( رد المحتار ،ج4 ،ص 115،116، مطبوعہ:کوئٹہ)
سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:" مذہبِ معتمد ومحقق میں استحلال بھی علی اطلاقہ کفر نہیں جب تک زنا یا شربِ خمر یا ترک صلاۃ کی طرح اس کی حرمت ضروریاتِ دین سے نہ ہو غرض ضروریات کے سوا کسی شے کا انکار کفر نہیں۔"(فتاوی رضویہ ، ج05،ص101،مطبوعہ:رضا فاؤنڈیشن ،لاہور)
لڑکی کےنکاح کے بعد،بغیر طلاق لیے اس کا نکاح آگےکسی اور سے کردینے کے متعلق ایک طویل سوال کے جواب میں سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:" لڑکی کا باپ دیوث ہے جس نے اپنی بیٹی زنا کے لئے دی بلکہ والدین کا یہ کہنا کہ قاضی نے بغیر طلاق حلال کر دیا کلمہ کفر ہے کہ انہوں نے قاضی کے کہنے سے زنا کو حلال جانا واستحلال المعصیۃ کفر (گناہ کو حلال سمجھنا کفر ہے۔) ان کا آپس میں نکاح نہ رہا دونوں نئے سرے سے مسلمان ہوکر پھرآپس میں نکاح کریں۔ "(فتاوی رضویہ ، ج18،ص622،مطبوعہ:رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم