Walima Ke Liye Humbistari Zaroori Hai Ya Nahi?

 

ولیمہ کے لئے ہمبستری ہونا ضروری ہے یا نہیں؟

مجیب:مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3469

تاریخ اجراء: 15رجب المرجب 1446ھ/16جنوری2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ولیمے کیلئے خلوت صحیحہ کا ہونا ضروری ہے یا معاملات کا ہونا کافی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ولیمہ ہونےکے لیے  میاں بیوی والےمعاملات یعنی ہمبستری ہوناضروری ہے ، لہذا اگر رخصتی ہوئی لیکن ہمبستری نہ ہوئی ہو اور اگلے دن دعوت کر لی جائے تو اس دعوت سے  ولیمہ کی سنتِ مستحبہ ادا نہیں ہو گی ۔

   حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار میں ہے:" ولیمۃ العرس تکون بعد الدخول"ترجمہ:شادی کا ولیمہ ہمبستری کے بعد ہوتا ہے۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار،کتاب الحظر والاباحۃ،ج 11،ص 70،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)

   فتاوی ہندیہ  میں ہے"وولیمۃ العرس سنۃ و فیھا مثوبۃ عظیمۃ و ھی اذا بنی الرجل بامرء تہ ینبغی أن یدعو الجیران والأقرباء و الأصدقاء ویذبح لھم و یصنع لھم طعاماً " ترجمہ : شادی کا ولیمہ کرنا سنت ہے اور اس میں بہت زیادہ ثواب ہے ، اور ولیمہ کی صورت یہ ہے کہ جب آدمی اپنی بیوی سے (پہلی بار) ہمبستری کر ے ، تو (اگلے دن )اپنے پڑوسیوں، رشتے داروں اور دوستوں کی دعوت کرے اور ان کے لئے جانور ذبح کرے اور کھانا تیار کرے۔“(فتاوی ھندیۃ ،جلد 5، صفحہ343،دار الفکر،بیروت)

   عمدۃ القاری میں ہے " قوله: (عند البناء) أي: الزفاف، يقال: بنى على أهله إذا زفها، وقال ابن الأثير: الابتناء والبناء: الدخول بالزوجة، والأصل فيه أن الرجل كان إذا تزوج امرأة بنى عليها قبة ليدخل بها فيها.“ترجمہ:بناء یعنی زفاف کے وقت ،کہا جاتا ہے اس نے اپنی بیوی سے دخول کیا جب اس کے پاس رات گزاری،ابن اثیر نے کہا:ابتناء و بناء کا معنی ہے زوجہ سے دخول کرنا،اس میں اصل یہ ہے کہ آدمی جب عورت سے شادی کرتا ہے تو اس پر قبہ بناتا ہے تاکہ اس میں عورت سے دخول کرے ۔(عمدۃ القاری،ج13،ص183،داراحیاء التراث العربی،بیروت)

   علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ اپنی لغت کی کتاب میں اس کا معنی بیان کرتے  ہوئے فرماتے ہیں:" ويقولون : بَنَى الرجلُ بامرأته إذا دخلَ بها وأصلُ ذلك أنَّ الرجلَ كان إذا تزوَّج يُبْنَى له ولأَهله خباءٌ جديد فكثرَ ذلك حتى استُعْمِل في هذا الباب“ترجمہ:جب کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ دخول کرتاہے تواس وقت  لوگ یہ کہتے ہیں:" بَنَى الرجلُ بامرأته " اور اس کی اصل یہ ہے کہ آدمی جب شادی کرتا ہے تو اس کے اور اس کی بیوی کے لئے نیا خیمہ بنایا جاتا ہے تو اس کا استعمال کثرت سے ہوا حتی کہ اس باب میں استعمال ہونے لگا ۔(المزھر فی علوم اللغۃ،جز1،ص334،مطبوعہ:دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   علم اللغۃ میں ہے:"و"بنى الرجل بامرأته" كانت تستخدم كناية عن دخوله بها؛ لأن الشاب البدوي كان إذا تزوج يبني له ولأهله خباء جديدًا، ولا تزال تستخدم هذه العبارة كناية عن المعنى نفسه۔"ترجمہ:یہ جملہ:" بَنَى الرجلُ بامرأته "اپنی بیوی سے دخول کرنے سے کنایہ کے طورپراستعمال ہوتاتھا کیونکہ دیہاتی جوان شخص جب شادی کرتا تو اس کے اور اس کی بیوی کے لئے نیا خیمہ بنایا جاتا ،پھر یہ عبارت ہمیشہ اپنے اسی معنی میں استعمال ہوتی رہی۔(علم اللغۃ،ص324،مطبوعہ:مصر)

   امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی  علیہ (سالِ وفات: 1340ھ) لکھتے ہیں :" شبِ زَفاف کی صبح کو احباب کی دعوت کرناولیمہ ہے ،رخصت  سے پہلے جو دعوت کی جائے ولیمہ نہیں،یونہی بعد ِرُخصت قبل زفاف۔" (فتاوی رضویہ،ج 11،ص 256،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم