ایک مٹھی داڑھی رکھنے کی منت کا شرعی حکم

 

ایک مٹھی داڑھی رکھنے کی منت کا شرعی حکم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD -9254

تاریخ اجراء: 29   رجب المرجب 1446ھ 30جنوری 2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے  میں کہ ایک شخص داڑھی کٹواتا ہے ،اس نے منت مانی کہ اگر میرا بیٹا پیدا ہو،تو میں  داڑھی  ایک مٹھی مکمل رکھ لوں گا ،اب اس کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی ہے، تو کیا   اس منت کو    پورا کرنا اس پر لازم  ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ایک مٹھی داڑھی رکھنا شرعاًواجب ہے،خواہ اس کی منت مانی جائے یا نہ مانی جائے ،بیٹا پیدا ہو  یا  نہ ہو،بہرصورت ایک مٹھی داڑھی رکھنا واجب ہی ہےاورداڑھی منڈانا یا ترشواکر  ایک مٹھی سے کم کرنا، ناجائز وحرام ہے،اب تک جس نے ایسا کیا اس پر لازم ہے کہ اس گناہ سے توبہ کرےاور پوری ایک مٹھی داڑھی رکھے، خصوصاً  جبکہ بیٹے جیسی نعمت کے حاصل ہونے پر داڑھی رکھنے کا خدا سے وعدہ بھی کرلیا تھا، تو اب اسے ضرور پورا کرے کہ خدا سے وعدہ کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی اور وعدے کا پورا کرنا مؤمن ہونے کی نشانیوں میں سے بھی ہے، پھر شرعی واجب اور اس کے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری سنت مبارکہ ہے، البتہ ویسے فقہی حکم یہ ہے کہ یہ منت نہیں ہے ،کیونکہ یہ تو ویسے ہی واجب ہے اور جو چیز پہلے ہی واجب ہو اس کی منت نہیں مانی جاتی۔ 

   داڑھی سے متعلق بخاری شریف میں ہے: ”عن ابن عمرعن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال خالفوا المشرکین وفروا اللحی وأحفوا الشوارب وکان ابن عمر إذا حج أو اعتمر قبض علی لحیتہ فما فضل أخذہ“ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہماسےروایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:مشرکین کی مخالفت کرو،داڑھی بڑھاؤاورمونچھیں پست کرو۔حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما جب حج یا عمرہ کرتے،تو اپنی داڑھی مٹھی میں لیتےاورجومٹھی سے زائد ہوتی، اسے کاٹ دیتے تھے۔(صحیح البخاری، جلد 7،صفحہ 160 ، مطبوعہ دار طوق النجاۃ )

   فتاوی رضویہ میں ہے:’’داڑھی منڈانااور کترواکر حدِ شرع سے کم کرانا،دونوں حرام وفسق ہیں۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد06،صفحہ505،رضافاؤنڈیشن،لاهور)

   منت   کی شرائط بیان کرتے ہوئے ابو الاخلاص علامہ حسن بن عمار شرنبلالی حنفی رحمۃ اللہ  علیہ (سال وفات :1069ھ)  لکھتے ہیں:’’(اذا نذر شیئا لزمہ الوفاء بہ اذا اجتمع فیہ) ای المنذور (ثلاثۃ شروط)۔۔۔الثالث  ان یکون لیس واجبا قبل نذرہ  بایجاب اللہ تعالی کاالصلوت الخمس  والوتر  ترجمہ :جب کوئی شخص کسی شے کی نذر (منت ) مانے ،تو اس منت کوپورا  کرنا لازم ہے، جبکہ اس منت والے کام میں تین شرائط پائی جائیں : ان میں سے تیسری شرط یہ ہے کہ  منت ماننے سے پہلے وہ چیز اللہ کی طرف سے واجب نہ ہو ،جیسے پانچ نمازیں اور وتر۔ (مراقی الفلاح شرح نور الایضاح،     صفحہ350،351، مکتبۃ المدینۃ ، کراچی  )

   اسی حوالے سے علامہ  علاؤالدین حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1088ھ/1677ء) لکھتےہیں:’’ ان  لایکون واجبا علیہ قبل  النذر“ ترجمہ:(منت کی ایک شرط یہ ہے کہ )  منت ماننے سے پہلے وہ  کام(شریعت کی طرف سے ) اس  پر واجب نہ ہو ۔ (الدرالمختار    ،جلد 5،صفحہ 540 ،مطبوعہ کوئٹہ )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم