حاجی کی دعا کب تک قبول ہوتی رہتی ہے؟

حج کرنے والے شخص کی گھر پہنچنے تک دعا قبول ہوتی ہے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ جب کوئی حاجی، حج سے واپس اپنے گھر لوٹتا ہے تو کیا گھر لوٹنے تک اس کے ساتھ فرشتے ہوتے ہیں؟ نیز حاجی جب واپس گھر آتا ہے، تو گھر والے اور رشتے دار اس سے دعا کرواتے ہیں، تو کیا حاجی کی دعا قبول ہوتی ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

حاجی کے گھر واپس لوٹنے تک اس کے ساتھ فرشتے ہوتے ہیں، یہ بات کہیں پڑھنے میں نہیں آئی، اللہ عز و جل بہتر جانتا ہے۔ البتہ احادیث مبارکہ سے یہ ثابت ہے کہ حاجی یا عمرہ کرنے والا جب اپنے گھر واپس لوٹے، تو اس کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے پہلے اس سے اپنے لئے دعائے مغفرت کروائی جائے کہ وہ مغفرت یافتہ ہےاور یہ بھی روایات سے ثابت ہے کہ حاجی اور عمرہ کرنے والا واپس اپنے گھر پہنچنے تک مستجاب الدعوات رہتا ہےیعنی اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ لہذا حاجی اور عمرہ کرنے والے کے گھر واپس ہونے سے پہلے کی جانے والی دعائیں تو بحکم حدیث قبول ہیں اور گھر واپسی کے بعد بھی اگر ان سے دعا کروائی جائیں تو اچھی بات ہے اور اللہ کی رحمت چاہے تو وہ دعائیں بھی قبول فرمائے کہ اس کی رحمت بہت وسیع ہے اور اس کے فضل کو کوئی روکنے والا نہیں۔

چنانچہ مسند احمد کی حدیث پاک ہے:

عن عبد الله بن عمر قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: إذا لقيت الحاج فسلم عليه، و صافحه، و مره أن يستغفر لك قبل أن يدخل بيته، فإنه مغفور له

ترجمہ: سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تو حاجی سے ملے تو اس کو سلام کر اور اس سے مصافحہ کر اور اس کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اپنی مغفرت کی دعا کیلئے کہہ کیونکہ وہ بخشا ہوا ہے۔ (مسند احمد، جلد 10، صفحہ 269، رقم الحدیث: 6112، مؤسسة الرسالة، بیروت)

اس حدیث پاک کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ مرآۃ المناجیح میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’مراد وہ ہے جو حج کر کے واپس وطن آیا، عمرہ یا زیارت مدینہ منورہ کرنے والا، غازی طالب علم بھی اسی حکم میں ہیں۔ (مرقات) ان سب سے دعا کرانا چاہیے۔ یعنی کوشش کرو کہ تم ہی سلام و مصافحہ کی ابتداء کر و، اگر حاجی غریب ہے اور تم امیر تو اسے سلام و مصافحہ کرنے میں اپنی توہین محسوس نہ کرو۔اور ابھی اس نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے کہ گھر میں نہیں پہنچا ہے، سفر ختم نہیں کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ حاجی کے آتے جاتے ہوئے راستہ کے گناہ بھی معاف ہیں، گھر میں آکر گناہ شروع ہوں گے، یہ بھی معلوم ہوا کہ مغفور لوگوں سے دعا کرانی چاہیے لہذا اولیاء اللہ اور چھوٹے بچوں سے دعا کر انی چاہیے۔‘‘ (مرآۃ المناجیح، جلد 4، صفحہ 102، نعیمی کتب خانہ گجرات)

شعب الایمان کی حدیث پاک ہے:

عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:خمس دعوات يستجاب لهن: دعوة المظلوم حين يستنصر، و دعوة الحاج حين يصدر، و دعوة المجاهد حين يقفل، و دعوة المريض حين يبرأ، و دعوة الأخ لأخيه بظهر الغيب

ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں: پانچ دعائیں قبول کی جاتی ہیں: مظلوم کی دعا یہاں تک کہ بدلہ لے لے، حاجی کی دعا یہاں تک واپس گھر لوٹ آئے، غازی کی دعا یہاں تک کہ جنگ بند ہوجائے، بیمار کی دعا یہاں تک صحت یاب ہو جائے، اور ایک مسلمان بھائی کی، اپنے دوسرے بھائی کیلئے اس کے پیٹھ پیچھے کی جانے والی دعا۔ (شعب الایمان، جلد 2، صفحہ 376، رقم الحدیث: 1087، مطبوعہ ھند)

سنن ابن ماجہ میں حدیثِ پاک ہے:

عن أبي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه و سلم أنه قال: الحجاج و العمار، وفد اللہ إن دعوه أجابهم، و إن استغفروه غفر لهم

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے ملاقاتی (اور مہمان) ہیں۔ اگر وہ اللہ سے دعا کریں تو اللہ ان کی دعا قبول کرتا ہے اور اگر وہ بخشش مانگیں تو انہیں بخش دیتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ، جلد 2، صفحہ 966، رقم الحدیث: 2892، دار إحياء الكتب العربية)

مراۃ المناجیح میں ہے: ’’مسلمانوں کا طریقہ ہے کہ حجاج کو پہنچانے، وداع کرنے اور واپسی پر ان کا استقبال کرنے کے لیے اسٹیشن تک جاتے ہیں ان سے دعا کراتے ہیں۔ یہ اس حدیث پر ہی عمل ہے کہ حاجی گھر سے نکلتے ہی مقبول الدعا ہے اور واپس گھر میں داخل ہونے تک مستجاب الدعوات رہتا ہے۔‘‘ (مرآۃ المناجیح، جلد 4، صفحہ 101، نعیمی کتب خانہ گجرات)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر:FAM-493

تاریخ اجراء: 23 محرم الحرام 1446ھ / 30 جولائی 2024ء