اچھی بات صدقہ ہے حدیث پاک کی وضاحت

اچھی بات صدقہ ہے حدیثِ پاک کی وضاحت

دارالافتاء اہلسنت عوت اسلامی)

سوال

ایک حدیث پاک ہے جس میں کہا گیا ہے کہ: "اچھی بات صدقہ ہے۔" یہاں اچھی بات سے کیا مراد ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

سوال میں ذکر کردہ حدیث پاک میں اچھی بات سے مراد" اچھا کلام ہے، اور اس میں چند احتمالات ہیں:

(الف)اس میں عموم مراد ہے کہ چاہے وہ ذکر و اذکار، تلاوت قرآن مجید وغیرہ ہو، اور چاہے لوگوں کے ساتھ کی جانے والی اچھی گفتگو (مثلا دوسروں کو سلام، ان کے سلام کا جواب، اپنے لیے اور دوسروں کے لیے دعائے خیر، جس بات سے سامنے والے کا دل خوش ہو، آپس میں محبت و بھائی چارے کی فضا قائم ہووغیرہ)ہو۔

(ب) یا پھر صرف ذکر و اذکار، تلاوت قرآن مجید و غیرہ مراد ہے۔

(ج) یا پھر صرف لوگوں کے ساتھ کی جانے والی اچھی گفتگو مراد ہے۔

حضرت علامہ مولانا ملا علی قاری علیہ الرحمۃ مرقاۃ المفاتیح میں ”والکلمۃ الطیبۃ“ کے تحت فرماتے ہیں:

”(والكلمة الطيبة) أي: مطلقا أو مع الناس“

 ترجمہ: اچھی بات صدقہ ہے، یعنی مطلقاً ہر اچھی بات یا لوگوں کے ساتھ اچھی بات۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد4، صفحہ1337، مطبوعہ: بیروت)

شارح مشکاۃ، امام ابن حجر ہیتمی شافعی علیہ الرحمہ الفتح المبین بشرح الاربعین میں لکھتے ہیں:

”(والكلمة الطيبة صدقة) وهي كل ذكر، ودعاء للنفس والغير، وسلام عليه، ورده، وثناء عليه بحق، ونحو ذلك مما فيه سرور السامع، واجتماع القلوب وتألفها“

ترجمہ: اور (اچھی بات صدقہ ہے) یعنی ہر ذکر، اپنے یا دوسروں کے لیے دعا، کسی پر سلام بھیجنا اور اس کا جواب دینا، اس کی جائز تعریف کرنا اور اس جیسے کام جو سننے والے کو خوش کرتے ہیں، دلوں کو جوڑتے ہیں اور باہمی الفت پیدا کرتے ہیں۔ (الفتح المبین بشرح الاربعین، صفحہ450، دار المنھاج، جدۃ)

شارح بخاری، امام ابن ملقن شافعی مصری علیہ الرحمہ المعین علی تفہم الاربعین میں لکھتے ہیں:

”الصدقة ضربان: عن أموال: كالزكاة وصدقة التطوع. وصدقة الأفعال كالمذكورة في الحديث۔۔۔ ومنه: الكلمة الطيبة، نحو: سلام عليكم، حياك الله، وإنك لمحسن، وأنت رجل مبارك، ولقد أحسنت جوارنا ونحو ذلك؛ لأنه مما يسر السامع، ويجمع القلوب ويؤلفها، ويحتمل أن يراد بها كلمة ذكر من تسبيح أو نحوه“

ترجمہ: صدقہ کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ جو مال کے ذریعے دیا جاتا ہے، جیسے زکوٰۃ اور نفل صدقہ۔ اور دوسرا وہ جو اعمال کے ذریعے ہوتا ہے، جیسے حدیث میں ذکر کیا گیا ہے، اور اسی میں سے اچھی بات بھی ہے، جیسے کہنا: السلام علیکم، اللہ تمہیں زندگی دے، تم تو بڑا اچھا کام کرنے والے ہو، تم با برکت آدمی ہو، تم نے ہمارے ساتھ بڑی اچھی ہمسائیگی نبھائی اور اس جیسے دوسرے کلمات۔ کیونکہ ایسی باتیں سننے والے کو خوش کرتی ہیں، دلوں کو جوڑتی ہیں اور آپس میں اُلفت پیدا کرتی ہیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد ذکر کے کلمات ہوں، جیسے تسبیح وغیرہ۔ (المعین علی تفھم الاربعین، صفحہ312، 313، مطبوعہ: کویت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد حسان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-4540

تاریخ اجراء:23جمادی الثانی1447ھ/15دسمبر2025ء