
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Fsd-9279
تاریخ اجراء:12 رمضان المبارک 1446 ھ/13 مارچ 2025 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ اللہ پاک کو طبیب کہنا کیسا ؟اور جن بعض روایتوں میں یہ لفظ ذکر ہوا اُن سے کیا مراد ہے؟
آفاق احمد (فیصل آباد)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
قوانینِ شرعیہ کی روشنی میں بطورِ نام دعا میں یا دیگر مواقع پر اللہ تبارک و تعالیٰ کو ”یا طبیب“کہہ کر پکارنا اور” طبیب“ کہنا جائز نہیں۔ بطور نام ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اسمائے باری تعالیٰ توقیفی ہیں، اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی نام نہیں بول سکتےاور لفظ ”طبیب“ بطور ِ نام اللہ تعالیٰ کے لیےقرآن و حدیث میں وارد نہیں۔
جہاں تک اُن روایات کا تعلق ہے جن میں یہ لفظ وارد ہوا، توان میں یہ لفظ بطورِ نام استعمال نہیں ہوا، بلکہ وہاں بھی یہ ”شافی مطلق اور عَالِمُ الاَمْرَاضِ وَ حَقِیْقَتِھَا“ کے معنی میں مستعمل ہے، لہٰذا ایسی احادیث کو دلیل بنا کر عمومی احوال میں اللہ تعالیٰ کو ”طبیب “ کے نام کے ساتھ پکارنے اور یاد کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ تاہم اگر کوئی دعا میں اور بطورِ نام تو ذکر نہ کرے، بلکہ علاج، معالجہ اورحصولِ شفا کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے لیے ”شافیِ مطلق “ کےمعنی میں لفظ ”طبیب“ بولے، تو یہ جائز ہےکہ حدیث و اقوالِ صحابہ میں اِسی قدر وارد ہے،جیساکہ علامہ علی قاری اور امام اہلسنت عَلَیْھِمَا الرَحْمَۃ نے لکھا۔
اسمائے الٰہیہ توقیفی ہیں اور جو نام شریعت نے بیان کر دئیے،اُنہی ناموں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو پکارنا ضروری ہے، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :﴿وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اَسْمَآىٕهٖ سَیُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ ترجمۂ کنزالعرفان : اور بہت اچھے نام اللہ ہی کے ہیں تو اسے ان ناموں سے پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں حق سے دور ہوتے ہیں، عنقریب اُنہیں ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ (پارہ 9، سورۃ الاعراف، آیت 180)
مذکورہ بالا آیت ِمبارکہ کے تحت صراط الجنان فی تفسیر القرآن میں ہے :”(اَلَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اَسْمَآىٕهٖ: جو اس کے ناموں میں حق سے دور ہوتے ہیں۔) اللہ تعالیٰ کے ناموں میں حق و اِستقامت سے دور ہونا کئی طرح سے ہے ایک تو یہ ہے کہ اس کے ناموں کو کچھ بگاڑ کر غیروں پر اِطلاق کرنا جیسا کہ مشرکین نے اِلٰہ کا”لات“ اور عزیز کا ” عُزّیٰ“ اور منان کا ” مَنات “ کرکے اپنے بتوں کے نام رکھے تھے، یہ ناموں میں حق سے تَجاوُز اور ناجائز ہے۔ دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے لئے ایسا نام مقرر کیا جائے جو قرآن و حدیث میں نہ آیا ہو ، یہ بھی جائز نہیں ، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کو سخی کہنا ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اَسماء تَوقِیفیہ ہیں۔ (صراط الجنان، جلد 3، صفحہ 481، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
اور لفظ ”طبیب “ بطور ِ نام اللہ تعالیٰ کے لیے نہیں بول سکتے،چنانچہ اوپر ذکر کردہ سورۃ الاعراف کی آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں ابو عبداللہ امام محمد بن عمر فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ ( سال ِ وفات : 606ھ ) لکھتے ہیں :”و هذا يدل على أن أسماء اللہ توقيفية لا اصطلاحية، و مما يؤكد هذا أنه يجوز أن يقال: يا جواد، و لا يجوز أن يقال: يا سخي، و لا أن يقال يا عاقل يا طبيب يا فقيه“ ترجمہ: یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اسماء توقیفی ہیں،نہ کہ اصطلاحی اور یا جوادکہنے کا جواز اور یا سخی، یا عاقل، یا طبیب، یا فقیہ کا عدم ِ جواز اِس (یعنی اسماء الہیہ کے توقیفی ہونے )کو مؤکد کرتا ہے۔ (تفسیر کبیر، جلد 15، صفحہ 415، دار إحياء التراث العربي، بيروت)
یونہی تفسیر خازن میں ہے:” أن يقال يا عالم ولا يجوز أن يقال يا عاقل ويجوز أن يقال يا حكيم ولا يجوز أن يقال يا طبيب“ مفہوم واضح ہے۔(تفسير الخازن، جلد 2، صفحہ 276، مطبوعه دار الكتب العلميه، بيروت)
ابو عبد اللہ امام حسین بن حسن حلیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 403ھ )عقائدکے بیان پر مشتمل اپنی کتاب ”المنہاج فی شعب الایمان“ میں لکھتے ہیں :”و الجواب: عن استدلاله بما يشتق لله تعالى من اسم الطب فيدعي طبيبًا فهو إن هذا ليس بمسلم، و ليس الطبيب بموجود في أسماء اللہ تعالى، و لا يجوز أن يقال لله تعالى عند الدعاء يا طبيب“ ترجمہ: اس استدلال کا جواب کہ اللہ تعالی کے لیے اسمِ طب مشتق ہوتا ہے، لہٰذا اسے طبیب کہا جاسکتا ہے، تو یہ بات مسلّم نہیں اور لفظِ ”طبیب“ اللہ تعالی کے اسماء میں موجود نہیں اور اللہ تعالی کو دعا کے وقت ”یا طبیب“ پکارنا، جائز نہیں۔ (المنهاج في شعب الايمان، جلد 2، صفحہ 200، مطبوعہ دار الفكر)
یونہی امام ابو بکر احمد بن حسین بیہقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 758 ھ) نے اسماء و صفاتِ باری تعالیٰ کے متعلق اپنی کتاب میں لکھا۔ (الاسماء والصفات، جلد 1، صفحہ 217، مطبوعہ مکتبۃ السوادی، السعودیہ العربیہ)
جس روایت میں اللہ تعالیٰ کے لیے ”طبیب“ کا لفظ مذکور ہوا،وہ بطورِ اسم نہیں، بلکہ ”شافی اور عَالِمُ الاَمْرَاضِ وَ حَقِیْقَتِھَا“ کے معنی میں ہے، چنانچہ وہ روایت اور شارحین کی نظر میں اس کامفہوم ملاحظہ کیجیے، حضرت ابو رِمْثَہْ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں: ”دخلت مع أبي على رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم فرأى أبي الذي بظهر رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم فقال: دعني أعالج الذي بظهرك فإني طبيب فقال: أنت رفيق واللہ الطبيب “ترجمہ: میں اپنے والد کے ساتھ رسول اﷲ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میرے والد نے رسول اﷲ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ کی پیٹھ میں کوئی چیز دیکھی، تو عرض کی کہ مجھے اجازت دیجیے میں آپ کی پیٹھ والی چیز کا علاج کردوں، کیونکہ میں طبیب ہوں، تو نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا :تم رفیق ہو اور اﷲ طبیب ہے۔ (مشكاة المصابيح، کتاب القصاص، جلد 2، صفحہ 1032، مطبوعہ المكتب الاسلامي، بيروت)
دعا میں اللہ تعالیٰ کو ”طبیب“ کہہ کر کیوں نہیں پکار سکتے، اس کی تفصیل بیان کرتے علامہ مظہر الدین مُظْہِرِی حَنَفی رَحْمَۃاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 727 ھ) لکھتے ہیں:” (الطبيب) هو العالم بحقيقة الداء و الدواء القادر على الصحة و الشفاء، و ليس ذلك إلا اللہ الواحد القهار، ثم تسمية اللہ تعالى به أن يذكر في حال الاستشفاء، مثل أن يقول: اللهم أنت المصحح و الممرض و المداوي و الطبيب، و نحو ذلك، فأما أن يقول: يا طبيب! افعل كذا، كما يقول: يا حليم يا رحيم، فإن ذلك مفارق لأدب الدعاء،فإنما الدعاء الثناء عليه بأبلغ الألفاظ و المختص به، بخلاف الشائع المشترك بينه و بين غيره، و لأن أسماءه توقيفية، و أيضا الطبيب عرفا: إنسان آخر سوف يمرض و يموت، فنزع عن لفظ مشعر بنقصان“ ترجمہ: حدیث پاک میں طبیب سے مراد وہ ذات ہے جو بیماری اور اس کے علاج کی حقیقت سے واقف، صحت و شفا دینے پر قادر ہو اور وہ ذات صرف اللہ واحد و قہار کی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کو طبیب کے نام کے ساتھ یاد کرنا علاج معالجہ کی مناسبت سے ضمنی طور پر درست ہے، جیسے یہ کہنا اے اللہ! تُو ہی صحت دینے والا، مرض بھیجنے والا اور طبیب ہے، بہر حال جس طرح ”یا حلیم و یا رحیم“ کہہ کر پکارا جاتا ہے،اِسی انداز پر یہ کہنا”اےطبیب !ایسا کر دے“ یہ بارگاہِ ربُّ العزت کے ادب کے خلاف ہے، کیونکہ دعا ایسے الفاظ کے ساتھ کی جاتی ہے جو تعریف و ثناء میں بلیغ ہوں اور اللہ کے ساتھ خاص ہوں، بخلاف ایسے الفاظ کے جو اللہ تعالیٰ کی ذات اور غیر خدا دونوں کے لیے بولے جاتے ہوں (تو وہ نہیں بول سکتے) اور اس لیے بھی کہ اللہ تعالیٰ کے نام توقیفی ہیں اور یہ اُن اسما میں موجود نہیں جو شرع میں وارد ہیں۔مزید یہ کہ عرف میں طبیب ایسے انسان کو کہا جاتا ہے جو کبھی خود بھی مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اس کی موت بھی واقع ہوتی ہے، تو (ثابت ہوا کہ) طبیب ایسے لفظ کے درجے میں ہےجس میں کمی اور کوتاہی پائی جاتی ہے۔ (المفاتیح شرح المصابیح، جلد 4، صفحہ 202، مطبوعہ دار النور)
یونہی شرح المصابیح لابن الملک، شرح المشکوۃ للطیبی، مرقاۃ المفاتیح وغیرہا شروحِ حنفیہ اور فیض القدیر، وغیرہاشروحِ حدیث میں ہے۔
اورمفتی محمد احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات: 1139ھ / 1971ء) لکھتے ہیں: ”یعنی یہ چیز قابلِ علاج نہیں، بلکہ تم قابلِ علاج ہوکہ اس قسم کی گفتگو کررہے ہو اپنے کو شافی الامراض سمجھتے اور کہتے ہو، شافیِ امراض اﷲ تعالیٰ ہے۔ خیال رہے کہ یہاں طبیب بمعنی شافی مطلق ہے، نہ کہ فنِّ طب سیکھا ہوا، لہذا اﷲتعالیٰ کو (عمومی حالت میں) طبیب کہنا شرعًا درست نہیں کہ یہ لفظ طبابت کا پیشہ کرنے والوں پر بھی بولا جاتا ہے، جیسے اﷲ تعالیٰ کو معلّم نہیں کہہ سکتے، اگرچہ وہ خود فرماتاہے:"عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ"کیونکہ معلم عمومًا تنخواہ دار مدرسین کو کہا جاتا ہے اور جو لفظ دو معنی رکھتا ہو اچھے اور بُرے اس کو اﷲ تعالیٰ کے لیے استعمال نہیں کرسکتے۔ اﷲ تعالیٰ کے نام توقیفی ہیں جو نص میں وارد ہوگئے ان ہی سے اسے پکارا جائے۔“ (مراٰۃ المناجیح، جلد 5، صفحہ 261، مطبوعہ نعیمی کتب خانہ، گجرات)
ان ذکرکردہ جزئیات اور شارحین ِ حدیث کے اقوال سے واضح ہوا ہے کہ بطورِ نام اور عمومی حالت میں نہ ہو، بلکہ طلبِ شفااور علاج معالجہ کی مناسبت سے اور شافی مطلق کے معنی میں ہو، تو بولنا جائز ہو گا، چنانچہ اِسی کی تصریح علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1014 ھ/ 1605 ء) نے ان الفاظ کے ساتھ کی:” و فيه إيماء إلى أنه يجوز أن يقال: هو الطبيب و هو رفيق على منوال ما ورد“ ترجمہ: حدیث پاک میں اِس بات کی طرف اشارہ ہےکہ (شافی وغیرہ کے معنی میں )یوں کہنا جائز ہے کہ وہ طبیب ہے، وہ رفیق ہے، اسی کے مطابق جو حدیث میں وارد ہوا۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد 8، صفحہ 3170، مطبوعہ دار الفكر بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
قرآن خوانی میں بلند آواز سے تلاوت کرنا کیسا ہے؟
قرآن کریم میں مشرق اور مغرب کے لیے مختلف صیغے کیوں بولے گئے؟
کیا تلاوت قرآن کے دوران طلباء استاد کے آنے پرتعظیماً کھڑے ہو سکتے ہیں؟
قرآن کریم کو رسم عثمانی کے علاوہ میں لکھنا کیسا؟
عصر کی نماز کے بعد تلاوت کا حکم
لیٹ کر قرآن پڑھنا کیسا ؟
قرآ ن خوانی کے بعد کھانا یا رقم لینا دینا کیسا ؟
قرآن پاک کو تصاویر والے اخبار کے ساتھ دفن کرنا کیسا ؟