اللّٰہ تمہاری صورتوں اور اموال کی طرف نہیں دیکھتا

حدیثِ پاک ”اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے اموال کی طرف نہیں دیکھتا“  کی وضاحت

دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس کے بارے میں کہ اس حدیث پاک کہ "اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے اموال کی طرف نہیں دیکھتا لیکن وہ تمھارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔" اس سے کیا مراد ہے؟ رہنمائی فرما دیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاذ اللہ، لوگوں کی صورتیں اور اموال اللہ تعالی سے پوشیدہ رہتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالی سے کوئی شے پوشیدہ نہیں ہے، لہذابندوں کے اموال اور ان کی صورتیں بھی ضرور اس پر عیاں ہیں، تو اس حدیث پاک سے مراد یہ ہے کہ:

لوگوں کے حسین و بدصورت ہونے اور ان کے اموال کے کم یازیادہ ہونے کا اس کے ہاں کوئی اعتبار نہیں ہے، بلکہ دل میں موجود اچھی صفات صدق، یقین، اخلاص، تقوی وغیرہ اور بری صفات ریاکاری کا ارادہ، طلب شہرت، حب جاہ، حسد و تکبر وغیرہ کا اعتبار ہے، اور اسی طرح اعمال کے درست ہونے اورفاسدہونے کااعتبارہے، لہذا انہی کے مطابق بندوں کو جزا و سزا ملے گی۔ صحیح مسلم شریف میں ہے

قال رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم: إن اللہ لا ينظر إلى صوركم و أموالكم، و لكن ينظر إلى قلوبكم و أعمالكم

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اللہ عزوجل تمہاری صورتوں اور اموال کی طرف نظر نہیں کرتا لیکن تمہارے دلوں اور اعمال کی طرف نظر فرماتا ہے۔ (صحیح مسلم، جلد 4، صفحہ 1987، حدیث: 2564، دار احیاء التراث العربی)

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں اس حدیث پاک کے تحت ملا علی قاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

أي: نظر اعتبار (إلى صوركم): إذ لا اعتبار بحسنها و قبحها (و أموالكم): إذ لا اعتبار بكثرتها و قلتها (و لكن)۔۔۔ (ينظر إلى قلوبكم) أي: إلى ما فيها من اليقين، و الصدق، و الإخلاص، و قصد الرياء، و السمعة، و سائر الأخلاق الرضية، و الأحوال الردية (و أعمالكم) أي: من صلاحها و فسادها، فيجازيكم على وفقها

یعنی: اللہ عَزَّوَجَلَّ نظر اعتباری سے تمہاری صورتوں کی طرف نہیں دیکھتا کیونکہ اس کے ہاں تمہاری خوبصورتی وبد صورتی کاکوئی اعتبار نہیں اور نہ وہ تمہارے اَموال کی طرف نظر فرماتا ہے کیونکہ اس کے نزدیک ان کی قِلَّت و کَثْرَت (کمی و زیادتی) کا کوئی اعتبار نہیں، بلکہ دلوں میں موجود یقین، صِدق، اِخلاص، رِیا کاارادہ، شہرت اور بقیہ اَخلاقِ حَسَنَہ (اچھے اخلاق) اور اَخلاقِ سَیِّئَہ (برے اخلاق) کو دیکھتا ہے اور تمہارے اَعمال دیکھتا ہے یعنی ان کی درستی و فساد کو اور پھر اس کے مطابق تمہیں اُن اعمال کی جزا عطا فرمائے گا۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، جلد 8، صفحہ 3331، مطبوعہ: بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا اعظم عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4433

تاریخ اجراء: 20 جمادی الاولٰی 1447ھ / 12 نومبر 2025ء