
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
اپنے اندازے سے، اپنی اٹکل سے حدیث کی شرح کرنا کیا گناہ ہے؟ مع حوالہ ارشاد فرمادیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اپنی طرف سے، بغیر علم کے، محض اپنے اندازے سےحدیث کی شرح کرنا سخت گناہ ہے۔
سیدی امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں: پس اگر شخص مذکور فی السوال خواہ بذات خود خواہ بفیض صحبت علماء کا ملین علم کافی رکھتا ہے جو بیان کرتا ہے غالبًا صحیح ہوتاہے اس کی خطا سے اس کا صواب زیادہ ہے تو حرج نہیں اور اگر دونوں وجوہِ علم سے عاری ہے صرف بطور خوداردوفارسی کتابیں دیکھ کر مسائل بتائے اور قرآن و حدیث کا مطلب بیان کرنے پر جرأت کرتا ہے تو یہ سخت اشدکبیر ہ ہے اور اس کے فتوٰی پر عمل جائز نہیں اور نہ اس کا بیان حدیث و قرآن سننے کی اجازت۔ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ و سلم فرماتے ہیں:
اجرأکم علی الفتیا اجرأکم علی النار
(جوشخص فتوٰی دینے میں زیادہ جرأت رکھتاہے وہ آتشِ دوزخ پرزیادہ دلیرہے۔)“ (فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 683 ، 684، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4079
تاریخ اجراء: 04 صفر المظفر 1447ھ / 30 جولائی 2025ء