
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس بارےمیں کہ حدیث مبارک میں ہے کہ اذان کے وقت دعا قبول ہوتی ہے،یہاں کون سا وقت مراد ہے ؟ اذان کے دوران دعا قبول ہوتی ہے یا اس کے بعد ؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اذان کے وقت دعا قبول ہوتی ہے، اس سے ” اذان مکمل ہونے کے بعد کا وقت “ مراد ہے ۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ حدیث مبارک میں قبولیتِ دعا کے اوقات بیان کرتے ہوئے ”الدعاء عند النداء“ یعنی ”اذان کے وقت دعا کرنے “کے کلمات وارد ہوئے ہیں اور شارحینِ حدیث نے اس وقت کی تعیین کے حوالے سے کلام کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سے ”اذان مکمل ہونے کے بعد کا وقت“ مراد ہے ، اس لیے کہ جب اذان ہو رہی ہوتی ہے، تو وہ اذان کا جواب دینے کا وقت ہے،لہٰذا اذان ختم ہونے کے بعد دعا کی جائے گی اور اس کی تائید اس حدیث مبارک سے بھی ہوتی ہے کہ جس میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اذان کے بعد دعا کرنے کی ترغیب ارشادفرمائی ہے ۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
” ثنتان لا تردان أو قلما تردان: الدعاء عند النداء وعند البأس حین یلحم بعضہ و بعضا “
ترجمہ : دو دعائیں رد نہیں کی جاتیں، یاکم ہی رد کی جاتی ہیں:اذان کے وقت کی گئی دعا اور جنگ کے وقت کی گئی دعا ، جب دونوں گروہ ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوں ۔ (سنن ابی داؤد ، ج 3 ،ص 21 ، رقم الحدیث 2540، المکتبۃ العصریہ ، بیروت)
علامہ طیبی رحمۃ اللہ علیہ مشکوٰۃ شریف کی شرح میں فرماتے ہیں :
”أقول: قرن الدعاء بين الأذإنين عند حضور الشيطان بعد الأذان لإيقاع الخطرات والوساوس ودفع المصلي إياه بالالتجاء والاستغاثة “
ترجمہ :میں کہتا ہوں کہ اذان ہو جانے کے بعداذان و اقامت کے درمیان دعا کوملانا ، اس وجہ سے ہے کہ وہ وساوس ڈالنے کے لیے شیطان کے آنے کا وقت ہے اور یوں نمازی التجاء کر کے اور اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کر کےاُسے دور کرے گا ۔ (شرح المشکاۃ للطیبی ، ج 3 ، ص 919 ، مطبوعہ الریاض )
ذکر کردہ حدیث مبارک کی شرح میں حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”یعنی مؤذن کے اذان سے فارغ ہوتے ہی، نہ کہ دورانِ اذان کہ وہ جوابِ اذان کا وقت ہے۔“ (مرآۃ المناجیح ، ج 1، ص418 ، نعیمی کتب خانہ ، گجرات )
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری میں ایک باب قائم کیا ، جس کا نام”باب الدعاء عند النداء“رکھا ، اس پر کلام کرتے ہوئے بخاری شریف کی مشہور و معروف شرح ” عمدۃ القاری “ میں علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
”ای ھذا باب فی بیان الدعا عند تمام النداء و ھو الاذان و قال بعضھم انما لم یقیدہ بذلک اتباعا لاطلاق الحدیث قلت : لیس فی لفظ الحدیث ھذہ الفظۃ و فی لفظ الحدیث ایضا مقدر و الا یلزم ان یدعو و ھو یسمع وحالۃ السماع و قت الاجابۃ والدعاء بعد تمام السماع “
ترجمہ :یعنی یہ باب اذان مکمل ہونے کے وقت دعا کرنے کے بارے میں ہے، نداء کا مطلب اذان ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : امام بخاری علیہ الرحمۃنے اس باب کےعنوان میں اذان مکمل ہونے کی قید حدیث کی اتباع کی وجہ سے ذکر نہیں کی کہ حدیث میں مطلق ذکر ہوا ہے۔ میں کہتا ہوں : حدیث کے الفاظ میں اذان مکمل ہونے کے الفاظ مذکور نہیں ، لیکن حدیث کے لفظ میں بھی یہ (اذان مکمل ہونے کے) الفاظ مقدر ہوں گے، ورنہ اذان سنتے ہوئے دعا کرنا لازم آئے گا اور حالتِ سماع (اذان سننے کی حالت) جوابِ اذان کا وقت ہے اور دعا کا وقت سماع کے مکمل ہونے کے بعد ہے۔ (عمد ۃالقاری ، ج5، ص 121 ، دار الفکر ، بیروت)
پھر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب کے تحت ایک حدیث ذکر فرمائی ، جس میں نبی پاک صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
”من قال حین یسمع النداء اللھم رب ھذہ الدعوۃ التامۃ و الصلاۃ القائمۃ اٰت محمد االوسیلۃ و الفضیلۃ و ابعثہ مقاما محمودا الذی وعدتہ حلت لہ شفاعتی یوم القیامۃ“
ترجمہ :جو اذان سنتے وقت یہ کہے:
”اللھم رب ھذہ الدعوۃ التامۃ و الصلاۃ القائمۃ اٰت محمد االوسیلۃ و الفضیلۃ و ابعثہ مقاما محمودا الذی وعدتہ حلت لہ“
تو اس کے لیے قیامت کے دن میری شفاعت واجب ہو جائے گی۔ (صحیح البخاری ، ج1 ، ص 126، رقم الحدیث 614 ، مطبوعہ مصر)
اس کے تحت’’ عمدۃ القاری ‘‘میں ہے :
”و ظاھر الکلام کان یقتضی ان یقال : حین سمع بلفظ الماضی لان الدعاء مسنون بعد الفراغ من الاذان لکن معناہ حین یفرغ من السماع او المراد من النداء تمامہ اذ المطلق محمول علی الکامل و یسمع حال لا استقبال و یؤیدہ حدیث عبد اللہ بن عمرو بن العاص اخرجہ مسلم بلفظ : (قولوا مثل ما یقول ثم صلو علی ثم سلو اللہ لی الوسیلۃ) ففی ھذا ان ذلک انما یقال عند فراغ الاذان“
ترجمہ:کلام کاظاہرتقاضاکرتاہے” حین یسمع “کی بجائے ” حین سمع“ ماضی کے صیغے ارشاد فرمائے جاتے ، کیونکہ دعا اذان سے فارغ ہونے کے بعد مسنون ہے، لیکن” حین یسمع“ کا مطلب ”حین یفرغ“ ہے یعنی جب اذان سن کر فارغ ہو جائے یا اذان سے مراد مکمل اذان ہے ، اس لیے کہ مطلق کامل فرد پرمحمول ہوتا ہے اور(یہاں )” یسمع“ زمانہ حال کے لیے ہے،نہ کہ استقبال کے لیے اور اس کی تائید حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کی حدیث سے ہوتی ہے، جس امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے ان الفاظ سے روایت کیا کہ اس کی مثل کہو، جو مؤذن کہتا ہے ، پھر مجھ پر درود پڑھو ، پھر اللہ تعالیٰ سے میرے لیے وسیلہ مانگو ۔تو اس میں یہ موجود ہے کہ اذان سے فارغ ہونے کے بعد دعاکی جائے گی ۔ (عمد ۃالقاری ، ج5، ص 122 ، دار الفکر ، بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:7593- Pin
تاریخ اجراء:03ذوالحجۃ الحرام 1446ھ/31 مئی 2025ء