
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتےہیں علمائےدین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارےمیں کہ فاسق کے پیچھے نماز کاکیا حکم ہے؟ اگر منع ہے، تو بعض لوگ اس حوالے سے حدیث بیان کرتے ہیں، جس میں فرمایا گیا کہ ہر نیک و بد کے پیچھے نماز پڑھو۔ (الحدیث) پھر اس حدیث کی کیا وضاحت ہو گی؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
فاسق یعنی جو شخص گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والا ہو یا گناہ صغیرہ پر اصرار کرنے والا ہو، اُس کے پیچھے نماز پڑھنا ممنوع ومکروہ ہے کہ حدیث پاک میں نیک پرہیز گار افراد کو امام بنانے کا حکم دیا گیا ہے اور فاسق کو امام بنانے سے منع کیا گیا ہے۔پھر فاسق دو طرح کا ہوتا ہے:
(1) فاسق غیر معلن یعنی جو چھپ کر / غیر اعلانیہ طور پر گناہ کرنے والا ہو۔ اس کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہِ تنزیہی ہے۔
(2) فاسق معلن یعنی جو اعلانیہ طور پر گناہ کرنے والا ہو ۔ ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی واجب الاعادہ ہے۔
اورجہاں تک اس روایت کی بات ہے کہ جس میں فرمایا گیا کہ ہر نیک و بد کے پیچھے نماز پڑھو۔ (الحدیث) یہ حکم عمومی حالات کے متعلق نہیں ہے،بلکہ یہ حکم اس صورت میں ہے کہ جب کوئی ظالم فاسق بادشاہ خود یا اس کی طرف سے مقرر کردہ فاسق شخص امام بن جائے اور اسے ہٹانے پر قدرت نہ ہو اور اس کے پیچھے نماز نہ پڑھنے پر بادشاہ کی طرف سے ظلم اور فتنے کا اندیشہ ہو ، تو مجبوراً فتنے سے بچنے کے لیے اُس کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت دی گئی جیسا کہ بعض اکابر نے اس حدیث کی شرح میں یہ بیان فرمایا کہ اس سے مراد ظالم بادشاہ ہے نیز اس معنیٰ کی تائید اس حدیث کے مختلف طرق اور دیگر روایات سے بھی ہوتی ہے اور پھر نیچے دئیے گئے دلائل میں صحیح حدیث درج ہے کہ جس میں فاسق کی امامت کو ممنوع قراردیا گیا، لیکن وہاں ظالم بادشاہ / حکمران کا استثناء کرتے ہوئے اس کے ظلم سے بچنے کے لیے اس کے پیچھے نمازکی اجازت کاذکرموجود ہے اور بعض اسلاف کے حوالے سے جو اس طرح کا منقول ہے کہ انہوں نے ظالم حکمرانوں جیسے حجاج بن یوسف وغیرہ کے پیچھے نمازیں ادا کی ہیں، ان کے بارے میں بھی یہی توجیہ ہے کہ ظلم و فتنے سے بچنے کے لیے انہوں نے ایسا کیا، ورنہ عمومی حالات میں کسی بزرگ سے ایسا کوئی فعل منقول نہیں ہے۔
اوپر بیان کردہ شرعی حکم کی تفصیل مع دلائل و جزئیات درج ذیل ہے:
نیک پرہیز گار کو امام بنانے کا حکم ہے۔ چنانچہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اجعلوا ائمتکم خیارکم
ترجمہ: اپنے میں بہترین (اوصاف والوں / تقوے والوں) کو اپنا امام بناؤ۔ (کنز العمال ، ج7 ، ص596 ، رقم الحدیث: 20432 ،مؤسسۃ الرسالۃ ، بیروت)
فاسق کی امامت ممنوع و مکروہ ہے۔ سنن ابن ماجہ میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
لا یؤم فاجرمومناً إلا أن یقھرہ بسلطان یخاف سیفہ وسوطہ
ترجمہ: کوئی فاسق کسی مسلمان کی امامت نہ کرے، مگر اس حالت میں کہ وہ اپنی سلطنت (طاقت) کے زور سے اس پہ غلبہ پا لے کہ وہ اس کی تلوار اور تازیانے کاخوف رکھتا ہو۔ (سنن ابن ماجہ، ج 1، ص343، رقم الحدیث : 1081، دار احیاء الکتب العربیۃ، بیروت)
حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی میں ہے:
كره إمامة الفاسق العالم لعدم اهتمامه بالدين فتجب إهانته شرعا فلا يعظم بتقديمه للامامة وإذا تعذر منعه ينتقل عنه إلى غير مسجده للجمعة وغيرها
ترجمہ: فاسق عالم کی امامت کو مکروہ قرار دیا گیا ہے، کیونکہ وہ دین کی پرواہ نہیں کرتا، پس شرعی طور پر اس کی اہانت واجب ہے، امامت کے لیے آگے کر کے اُسے تعظیم نہیں دی جائے گی اور جب اُسے امامت سے روکنا ممکن نہ ہو ، تو جمعہ اور دیگر نمازوں کے لیے اس کی مسجد کے علاوہ کسی اور مسجد میں جانا ہو گا۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی ، ص 302 ، دار الکتب العلمیۃ ، بیروت)
فاسق معلن و غیر معلن کے پیچھے نماز کی کراہت کی تفصیل بیان کرتے ہوئے امامِ اہلسنت الشاہ امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں: ” فاسق وہ کہ کسی گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا اور وہی فاجر ہے اور کبھی فاجر خاص زانی کو کہتے ہیں، فاسق کے پیچھے نماز مکروہ ہے پھر اگر معلن نہ ہو یعنی وہ گناہ چھُپ کر کرتا ہو معروف و مشہور نہ ہو تو کراہت تنزیہی ہے یعنی خلاف اولیٰ، اگر فاسق معلن ہے کہ علانیہ کبیرہ کا ارتکاب یاصغیرہ پر اصرار کرتا ہے تو اسے امام بنانا گناہ ہے اور اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی کے پڑھنی گناہ اور پڑھ لی تو پھیرنی واجب۔“ (فتاوی رضویہ، ج 6، ص 601، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
حدیث پاک:
صلوا خلف کل بر و فا جر
بادشاہوں اور حکمرانوں کے متعلق ہے۔چنانچہ مجمع بحار الانوار میں ہے:
(صلوا خلف كل بر وفاجر) ای سلطان جائر یجمع الناس و یؤمھم فی الجمعۃ و الاعیاد
ترجمہ: ہر نیک و بد کے پیچھے نماز پڑھو یعنی ظالم سلطان کے پیچھے نماز پڑھ لو کہ جو لوگوں کو جمع کرے اور جمع اور عیدین میں ان کا امام بن جائے۔(مجمع بحار الانوار ، ج5 ، ص 506، مطبعۃ مجلس دائرۃ المعارف العثمانیۃ )
الاعتقاد الخالص میں ہے:
نعتقد جواز الجمعۃ و العیدین و وغیرھما خلف کل امام مسلم برا کان او فاجرا و ھذا اذا کان الامام الخلیفۃ و السلطان
ترجمہ: ہم جمعہ اور عیدین اور ان کے علاوہ نمازیں ہر مسلمان امام کے پیچھے پڑھنے کے جواز کا اعتقاد رکھتے ہیں ۔ یہ اس صورت میں ہے ، جبکہ امام خلیفہ اور سلطان ہو۔ (الاعتقاد الخالص ،ص 293 ، مطبوعہ قطر)
اس حدیث مبارک کے سیا ق و سباق اور مختلف طرق اوراس کی ہم معنیٰ دیگر روایات کو ملاحظہ کرنے سے بھی اس معنیٰ کی تائید ہوتی ہے کہ یہاں بادشاہوں کی بات چل رہی ہے ۔چنانچہ اس حدیث کے مختلف الفاظ ملاحظہ کیجئے:
صلوا خلف كل بر وفاجر، وصلوا على كل بر وفاجر وجاهدوا مع كل بر وفاجر
ترجمہ: ہر نیک اور بد کے پیچھے نماز پڑھو اور ہر نیک و بد کی معیت میں جہاد کرو۔(سنن دار قطنی ، ج 2، ص 405 ، رقم الحدیث :1768، مؤسسۃ الرسالۃ ، بیروت)
اس روایت کے منقول مختلف الفاظ:
ایک سند سے اس روایت کے الفاظ کچھ یوں منقول ہیں:
الصلاۃ واجبۃ علیکم مع کل مسلم برا کان او فاجرا و الجھاد واجب علیکم مع کل امیر برا اوکان فاجرا
ترجمہ: تم پرہرمسلمان کے ساتھ نماز پڑھنا واجب (ثابت) ہے ،خواہ وہ نیک ہو یا بد اور تم پر سلطان کی معیت میں جہاد (کے لیے نکلنا) واجب ہے ، خواہ وہ نیک ہویا بد۔ (سنن دار قطنی، ج 2، ص 402، رقم الحدیث :1764 ، مؤسسۃ الرسالۃ ، بیروت)
ایک طریق میں یہ الفاظ وارد ہوئے:
من اصل الدین الصلاۃ خلف کل بر و فاجر و الجھاد مع کل امیر و لک اجرک
ترجمہ: ہر نیک اور بد کے پیچھے نماز پڑھنا ہے اور ہر سلطان کی معیت میں جہاد کرنا دین کی اصل میں سے ہے اور تمہارے لیے تمہارا اجر ہے۔ (سنن دار قطنی، ج 2، ص 403، رقم الحدیث: 1765، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)
مزید ایک سند سے اس کے الفاظ یوں منقول ہیں:
صلوا مع کل امام و جاھدوا مع کل امیر
ترجمہ: ہر امام کے ساتھ نماز پڑھو اور ہرسلطان کی معیت میں جہادکرو۔ (سنن دار قطنی ، ج 2، ص 403 ، رقم الحدیث: 1766 ، مؤسسۃ الرسالۃ ، بیروت)
ایک روایت کے الفاظ یوں ہیں:
ثلاث من السنۃ: الصف خلف کل امام لک صلاتک و علیہ اثمہ و الجھاد مع کل امیر لک جھادک و علیہ شرہ
ترجمہ: تین باتیں سنت میں سے ہیں: ہر امام کے پیچھےنماز کی صف میں کھڑا ہونا ، تیرے لیے تیری نماز ہےاور اس پر اس کا گناہ ہے اور ہر امیر کی معیت میں جہاد کرنا ، تیرے لیے تیرا جہاد ہے اور اس پر اس کا شر ہے۔ (سنن دار قطنی ، ج 2، ص 405 ، رقم الحدیث: 1769 ، مؤسسۃ الرسالۃ ، بیروت)
ایک روایت میں یوں ارشاد فرمایا گیا:
سيليكم بعدي ولاة فيليكم البر ببره والفاجر بفجوره فاسمعوا له وأطيعوا ما وافق الحق وصلوا و راءھم
ترجمہ:میرے بعد تم پر کچھ حکمران ہوں گے ، پس نیک اپنی نیکی کے ساتھ حکمرانی کرے گا اور جو بداپنی بدی کے ساتھ حکمرانی کرے گا ، تم ان کی بات سنو اور اطاعت کرو ، جب تک وہ حق کے موافق عمل کریں اور ان کے پیچھے نماز پڑھتے رہو۔ (جمع الجوامع، ج 5، ص 360 ، رقم الحدیث : 14993 مطبوعہ القاھرۃ)
امام اہلسنت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ”اس حدیث کا شروع کاٹکڑا یہ ہے
جاھدوا مع کل برا کان او فاجرا
یعنی ہر سلطان کے ساتھ جہادکرو، چاہے وہ نیک ہو یا بد۔ اسی سے پتاچلتا ہے کہ یہاں بادشاہوں کا ذکر ہے۔“(اظھار الحق الجلی، ص 17، سوال نمبر 33، بزمِ عاشقانِ مصطفیٰ، لاھور)
فاسق کے پیچھے نماز پڑھنے سے فرض اتر جائے گا، لیکن کراہت ہو گی۔ علامہ سندی رحمۃ اللہ علیہ فاسق کی امامت کے ممنوع ہونے والی روایت پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
و الذی عند کثیر من العلماء محمول علی الکراھۃ و الا فالصلاۃ صحیحۃ
ترجمہ: کثیر علماء کے نزدیک یہ حدیث کراہت پرمحمول ہے ، ورنہ نماز درست ہوجائے گی (یعنی فرض ذمے سے اتر جائے گا)۔ (حاشیۃ السندی علی سنن ابن ماجۃ، ج 1، ص 334، تحت الرقم: 1081، دار الجیل، بیروت)
مبسوط سرخسی میں ہے:
تقدیم الفاسق جائز عندنا و یکرہ
ترجمہ:فاسق کو امامت کے لیے آگے بڑھانا ہمارے نزدیک جائز، لیکن مکروہ ہے۔ (المبسوط للسرخسی، ج 1، ص 40، دار المعرفۃ، بیروت)
حدیث پاک:
صلوا خلف کل بر و فا جر
اور فاسق کے پیچھے نماز کے جواز پر فقہائے کرام کے قول کی وضاحت کرتے ہوئے امامِ اہلسنت علیہ الرحمۃ ہیں: ”یہ جواز اس معنٰی پر ہے کہ فرض اتر جائے گا، نہ یہ کہ کوئی کراہت نہیں۔۔۔۔۔ اصل بات یہ ہے کہ نمازِ عام کی امامت سلاطین خود کرتے ہیں یا وہ جسے وہ مقرر کریں اور بعض وقت حُکّام بد مذہب یا فاسق بھی ہوئے، اُن کے پیچھے نماز پڑھنے سے وہی اندیشہ تھا تلوار اور تازیانہ کا،جوحدیث میں گزرا۔ اسی بنا پر یہ حدیث آئی ہے کہ ضرورت کے وقت ان کے پیچھے پڑھ لے۔“ (اظھار الحق الجلی، ص 17، سوال نمبر 33، بزمِ عاشقانِ مصطفیٰ، لاھور)
اسی حوالے سے فتاوی رضویہ شریف میں امامِ اہلسنت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ”زمانہائے خلافت میں سلاطین خود امامت کرتے اور حضور عالمِ مکان و مایکون صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ ان میں فسّاق و فجّار بھی ہونگے فرمایا کہ
ستکون علیکم امراء یؤخرون الصلٰوۃ عن وقتھا
(تم پر ایسے امراء وارد ہوں گے جو نمازوں کو وقت سے مؤخر کرینگے۔ ت) اور معلوم تھا کہ اہل صلاح کے قلوب ان کی اقتداء سے تنفر کریں گے اور معلوم تھا کہ اُن سے اختلاف آتشِ فتنہ کو مشتعل کرنے والا ہوگا اور دفع فتنہ دفع اقتداء فاسق سے اہم و اعظم تھا۔
قال ﷲ تعالٰی:﴿وَ الْفِتْنَةُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ﴾
(فتنہ قتل سے بڑاو بدتر ہوتا ہے۔ت) لہذا دروازہ فتنہ بند کرنے کے لئے ارشاد ہوا:
صلواخلف کل بر وفاجر
(ہر نیک وفاجر کے پیچھے نماز ادا کرو۔ت) یہ اس باب سے ہے:
من ابتلی ببلیتین اختاراھونھما
(جوشخص دومصیبتوں میں مبتلا ہوجائے تو ان میں آسان کو اختیار کرے۔ت)اور فقہا کا قول:
تجوز الصلاۃ خلف کل بروفاجر
(ہر نیک وفاجرکے پیچھے نماز ادا کرنا جائز ہے۔) اُسی معنی پر ہے جو اوپر گزرے کہ نماز فاسق کے پیچھے بھی ہوجاتی ہے، اگر چہ غیر معلن کے پیچھے مکروہ تنزیہی اور معلن کے پیچھے مکروہِ تحریمی ہوگی۔“(فتاوی رضویہ، ج 6، ص 519، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
بعض اسلاف (صحابہ کرام وعلمائے امت) سے جومنقول ہے کہ انہوں نے فاسقوں / بدعتیوں کے پیچھے نمازیں پڑھیں، تو اس کی توجیہ یہ ہے کہ ظلم و فتنے سے بچنے کے لیے انہوں نے ایسا کیا۔ حاشیۃ الشلبی میں ہے:
(و کان ابن عمر و انس یصلیاں الجمعۃ خلف الحجاج ) وقد کان فی غایۃ الجور و الظلم، ذکرالترمذی انہ قتل ماۃ الف وعشرین الفا
ترجمہ: حضرت ابن عمر و حضرت انس رضی اللہ عنہما حجاج بن یوسف کے پیچھے نماز پڑھتے تھے ا ور وہ انتہا درجے کا ظالم و جابر شخص تھا ، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا کہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار افراد کو قتل کیا۔(حاشیۃ الشلبی، ج 1، ص 135، مطبوعہ القاھرۃ )
فتاوی مصطفویہ میں حضور مفتئ اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ فاسق کی امامت پر تفصیلی کلام کرتے ہوئے مختلف کتب کی عبارات نقل کر کے فرماتے ہیں: ”جازت کے بعد و لا تفسد فرمایا، جو باعلیٰ ندا منادی کہ یہاں جواز بمعنیٰ صحت ہی مراد ہے، ہر گز بمعنیٰ حل نہیں، ان کی اس عبارت سے جہاں یہ بات معلوم ہوئی کہ تقدیم پر کراہت موقوف نہیں اور نفسِ تقدیم ہی مکروہ نہیں، بصورتِ تقدم بھی کراہت ہو گی۔ وہاں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہاں جواز بمعنیٰ حل نہیں، بلکہ بمعنیٰ صحت یجوز خلفھم الصلاۃ ای یصح۔ انہیں عبارات سے روشن ہوا کہ صحابہ جو اقتداء حجاج کرتے تھے، اس کا محمل کیا ہے۔“ (فتاوی مصطفویہ، ص 188، شبیربرادرز، لاھور)
سوال ہوا کہ علمائے امت جوفاسقوں اور بدعتیوں کے پیچھے نماز پڑھتے تھے، ان کا یہ فعل مکروہ یا حرام تھا یا نہیں؟ تو اسکے جواب میں امامِ اہلسنت علیہ الرحمۃ نے فرمایا: ”یقیناً یہ علماء بھی اسے مکروہ جانتے، مگر سلطنت کی مجبوری سے پڑھتے، مجبوری میں ممنوع تک کی رخصت مل جاتی ہے۔“ (اظھار الحق الجلی، ص 67، سوال نمبر 131، بزمِ عاشقانِ مصطفیٰ، لاھور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Pin-7612
تاریخ اجراء: 27 محرم الحرام 1447ھ/ 23جولائی 2025ء