فجر کی فرض نماز کے بعد سنتیں پڑھ سکتے ہیں ؟

فجر کے فرضوں کے بعد سنتیں پڑھ سکتے ہیں ؟ ایک حدیث پاک کی شرح

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک یوٹیوبر نے جامع ترمذی کی حدیث پاک بیان کی کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو فجر کے فرضوں کے بعد نماز پڑھتے دیکھا تو ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے عرض کی میں نے فرض سے پہلے سنتیں ادا نہیں کیں اس لیے وہ ابھی پڑھ رہا ہوں تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت فرمایا۔ اس حدیث پاک سے تو معلوم ہوتا ہے کہ فجر کے فرض پڑھ لینے کے بعد بھی طلوع آفتاب سے پہلے بھی سنتیں ادا کی جا سکتی ہیں؟ برائے کرم اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

اولا یہ شرعی مسئلہ سمجھ لیں کہ اگر کسی نے فجر کے فرض ادا کرنے سے پہلے سنتیں ادا نہیں کی تو اب ان سنتوں کو سورج کے بلند ہونے تک نہیں پڑھ سکتا، جب طلوع آفتاب ہوجائے اور تقریبا 20 منٹ گزر جائیں تو اب یہ سنت پڑھ لینا بہتر ہے۔

 سوال میں مذکور حدیث اولا تو ضعیف ہے اور ضعیف حدیث فضائل میں معتبر ہوتی ہے، احکام میں نہیں، ثانیا اس حدیث میں اس بات کی صراحت نہیں کہ وہ صحابی فجر کا وقت ختم ہونے کے بعد اور مکروہ وقت ہونے کے بعد سنت ادا کر رہے تھے یا اس سے پہلے، جب کہ اس کے برعکس قولی اور فعلی دونوں طرح کی صحیح احادیث میں حکم موجود ہے کہ سنت فجر جب چھوٹ جائیں تو ان کو سورج کے طلوع یعنی اس کے بلند ہونے کے بعد پڑھا جائے۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں:

’’أن النبي - صلى الله عليه وسلم - نام عن ركعتي الفجر، فقضاهما بعدما طلعت الشمس‘‘

 ترجمہ: نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم فجر کی دو رکعت سنت نیند کے سبب ادا نہیں کرسکے تو سورج کے طلوع ہونے کے بعد ادا کیا۔ (سنن ابن ماجہ، جلد 1، صفحہ 445، رقم 1155، طبع مؤسسۃ الرسالہ بیروت)

حافظ بوصیری رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: ’’هذا إسناد رجاله ثقات‘‘ ترجمہ: اس سند کے رجال ثقہ ہیں۔ (مصباح الزجاجۃ، جلد 1، صفحہ 178، طبع دار الجنان بیروت)

امام ترمذی اور حافظ ابن حبان صحیح سند کے ساتھ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’من لم يصل ركعتي الفجر، فليصلهما بعدما تطلع الشمس‘‘

 ترجمہ: جس نے فجر کی دو رکعت (سنت) نہیں پڑھی تو وہ اسے سورج کے طلوع ہونے کے بعد پڑھ لے۔ (سنن الترمذی، جلد 2، صفحہ 287، رقم 423، طبع قاہرہ، صحیح ابن حبان، جلد 6، صفحہ 224، رقم 2472، طبع بیروت)

ان احادیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی کہ جس کی سنت فجر کسی وجہ سے چھوٹ جائیں اور وہ اس کی قضاء کرنا چاہے تو سورج طلوع ہونے یعنی اس کے بلند ہونے کے بعد کرے گا۔

سوال میں مذکور حدیث کا معنی:

اولا اس حدیث کا متن اور ترجمہ ملاحظہ ہو:

”حدثنا محمد بن عمرو السواق، قال: حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن سعد بن سعيد، عن محمد بن إبراهيم، عن جده قيس قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأقيمت الصلاة، فصليت معه الصبح، ثم انصرف النبي صلى الله عليه وسلم فوجدني أصلي، فقال: مهلا يا قيس، أصلاتان معا، قلت: يا رسول الله، إني لم أكن ركعت ركعتي الفجر، قال: فلا إذن‘‘

 ترجمہ: امام ترمذی اپنی سند کے ساتھ حضرت قیس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے، پھر نماز قائم کی گئی تو میں نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ فجر کی نماز ادا کی، جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے سلام پھیرا تو مجھے نماز پڑھتے پایا، اس پر ارشاد فرمایا، ٹھہرو اے قیس، کیا دو نمازیں ایک ساتھ پڑھ رہے ہو، میں نے عرض کی یارسول اللہ میں فجر سے پہلے کی دو رکعت نہیں پڑھ سکا تھا، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پھر کوئی حرج نہیں۔ (سنن الترمذی، جلد 2، صفحہ 248، رقم 422، طبع قاہرہ)

اولا: یہ حدیث مبارک سندا ضعیف ہے لہذا احکام میں اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا بالخصوص جبکہ یہ صحیح حدیث کے معارض ہے۔

حافظ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ تعالی اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’وقد ضعف أحمد هذا الحديث، وقال: ليس بصحيح.‘‘

 ترجمہ: امام احمد رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے اور فرمایا کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ (فتح الباری لابن رجب الحنبلی، جلد 5، صفحہ 94، طبع مکتبۃ الغرباء، المدینۃ المنورۃ)

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ خود اس حدیث کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:

’’وإسناد هذا الحديث ليس بمتصل محمد بن إبراهيم التيمي لم يسمع من قيس‘‘

ترجمہ: اس حدیث کی سند متصل نہیں، محمد بن ابراہیم التیمی نے حضرت قیس رضی اللہ تعالی عنہ سے سماع نہیں کیا۔ (سنن الترمذی، جلد 2، صفحہ 248، رقم 422 طبع قاہرہ)

ثانیا اگر یہ حدیث صحیح بھی ہوتی تو ترجیح کا ایک اصول یہ ہے کہ اگر کسی مقام پر مبیح (یعنی اجازت پر مشتمل حکم) اور حاظر (یعنی ممانعت پر مشتمل حکم) میں تعارض ہوجائے تو ممانعت کو مؤخر قرار دیتے ہوئے اسے ناسخ مانا جاتا ہے۔ علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ تعالی علیہ مذکورہ حدیث کے تحت اسی قاعدے کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’استقرت القاعدة أن المبيح والحاظر إذا تعارضا جعل الحاظر متأخرا‘‘

ترجمہ: یہ قاعدہ مقرر ہے کہ مبیح اور حاظر جب متعارض ہوجائیں تو حاظر کو مؤخر قرار دیا جائے۔ (عمدۃ القاری، جلد 5، صفحہ 78، طبع دار احیاء التراث العربی)

اس کے مطابق اگر بالفرض اس حدیث کو صحیح تسلیم بھی کرلیا جائے تو جن احادیث میں نمازِ فجر کے بعد نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے تو وہ احادیث اس حدیث کے لیے منسوخ قرار پائیں گی۔نماز فجر کے بعد نماز کی ممانعت پر بخاری شریف میں حدیث ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

”لا صلاۃ بعد الصبح حتی ترتفع الشمس، ولا صلاۃ بعد العصر حتی تغیب الشمس“

 ترجمہ بعدِ صبح( یعنی نمازِفجر) کوئی نمازجائز نہیں یہاں تک کہ سورج بلند ہو جائے اور عصر کے بعد کوئی نماز جائز نہیں یہاں تک کہ سورج غروب ہو جائے۔ (صحیح البخاری، صفحہ 119، الحدیث: 586، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

ثالثا اس حدیث میں اس بات کا احتمال بھی موجود ہے کہ ممکن ہے وہ صحابی طلوع آفتاب کے بعد ہی سنت پڑھ رہے ہوں، اگر ایسا ہے تو پھر اس حدیث سے فجر کے بعد سنت پڑھنے کے جواز پر استدلال درست نہیں۔مفتی احمد یار خان نعیمی رحمہ اللہ تعالی "مرآۃ المناجیح" میں اس حدیث مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ’’نیز اس حدیث میں یہ پتہ نہ لگا کہ وہ صحابی فجر کے بعد کسی وقت سنتیں پڑھ رہے تھے آفتاب نکلنے سے پہلے يا بعد لہذا حدیث گویا مجمل ہے اور ممانعت صراحۃً آچکی ہے کہ صبح کی نماز کے بعد نماز نہیں۔“ (مرآۃ المناجیح، جلد02، صفحہ148، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: ابو حمزہ محمد حسان عطاری

مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:  HAB-620

تاریخ اجراء: 11صفر المظفر1447ھ/06 اگست 2025ء