دارالافتاء اہلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ علم کے فضائل بیان کرتے ہوئے ایک حدیث پاک بیان کی جاتی ہے کہ ”طالبِ علم دین کے لیے فرشتے اپنے پَر بچھاتے ہیں۔“ تو کیا یہ روایت درست ہے ؟ اگر درست ہے تو پھر فرشتوں کا پر بچھانا حقیقت میں ہوتا ہے یا اس سے کچھ اور مراد ہے؟ رہنمائی فرمادیں۔سائل: مبشر (اوکاڑہ)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سوال میں بیان کردہ حدیث مبارک درست ہے اور کئی معتبر و مستند کتبِ احادیث میں یہ روایت موجود ہے۔
چنانچہ سنن ابی داؤد، ابن ماجہ، مسند امام احمد، سنن دارمی وغیرہ کتبِ احادیث میں یہ حدیث موجود ہے:
واللفظ لابی داؤد: ”عن كثير بن قيس، قال: «كنت جالسا مع أبي الدرداء في مسجد دمشق فجاءه رجل، فقال: يا أبا الدرداء، إني جئتك من مدينة الرسول صلى الله عليه وسلم لحديث بلغني أنك تحدثه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ما جئت لحاجة، قال: فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من سلك طريقا يطلب فيه علما، سلك الله به طريقا من طرق الجنة، وإن الملائكة لتضع أجنحتها رضا لطالب العلم وإن العالم ليستغفر له من في السماوات والأرض والحيتان في جوف الماء، وإن فضل العالم على العابد كفضل القمر ليلة البدر على سائر الكواكب، وإن العلماء ورثة الأنبياء، وإن الأنبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ورثوا العلم، فمن أخذه أخذ بحظ وافر“
ترجمہ: حضرت کثیر بن قیس روایت کرتے ہیں کہ میں دمشق کی مسجد میں حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، تو ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: اے ابو درداء میں پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر (مدینہ شریف)سے آیا ہوں ایک حدیث مبارکہ کے لیے کہ مجھے معلوم ہوا کہ وہ حدیث آپ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں، اس کے علاوہ اور کسی حاجت کے لیے نہیں آیا، تو حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ: جو شخص علم حاصل کرنے کے راستے پر چلتا ہے، اللہ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے۔ فرشتے علم حاصل کرنے والے کے لیے خوشی سے اپنے پر بچھا دیتے ہیں، اور آسمان و زمین کی ہر چیز حتیٰ کہ پانی میں موجود مچھلیاں بھی اس کے لیے استغفار کرتی ہیں۔ عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی فضیلت ستاروں پر۔ علماء انبیاء کے وارث ہیں، اور انبیاء نے درہم و دینار کا ورثہ نہیں چھوڑا بلکہ علم کا ورثہ چھوڑا ہے، پس جس نے علم حاصل کیا اس نے بہت بڑی دولت حاصل کی۔ (سنن ابی داؤد، جلد03، الحدیث 3641، المكتبة العصرية، بیروت)
فرشتوں کے پر بچھانے سے مراد کیا ہے؟
مرقومہ بالا حدیث مبارکہ کے اس جزء" فرشتے علم حاصل کرنے والے کے لیے خوشی سے اپنے پر بچھا دیتے ہیں " میں پر بچھانے کے متعلق شارحین ِ حدیث علماء کرام علیہم الرضواننے کئی معانی بیان فرمائے ہیں:
(1)۔۔۔فرشتوں کے پر بچھانے سے مراد حقیقتاً پَر بچھانا ہے، تاکہ جب طالب علم چلے تو وہ پَر اس کے لیے فرش بن جائیں، اگر چہ طالب علم کو پَر نظر نہیں آتے۔
(2)۔۔۔یا اس سے مراد یہ ہے کہ فرشتے اُڑنا بند کر کے نیچے آ جاتے ہیں، تاکہ ذکر (علم) سنیں۔
(3)۔۔۔یا اس سے مراد یہ ہے کہ فرشتے عاجزی اور انکساری کے طور پر، طالب علم کے حق کی عظمت اور علم کی محبت کی وجہ سے اپنے پَر بچھا دیتے ہیں۔
(4)۔۔۔ یا اس سے مراد یہ ہے کہ وہ طالب علم کی مدد کرتے ہیں، اور علم کی طلب میں آسانی پیدا کرتے ہیں۔
(5)۔۔۔یا اس سے مراد یہ ہے کہ فرشتے نرمی، فرمانبرداری اور مہربانی کے ساتھ اس پر جھکتے ہیں اور اس پر رحمت و شفقت کا سایہ کرتے ہیں۔
(6)۔۔۔یا اس سے مراد یہ ہے کہ قیامت والے دن فرشتے طالب علم کے قدموں کے نیچے اپنے پَر بچھا دیں گے۔
جزئیات:
علامہ محمد بن عبد الھادی نور الدین السندی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں:
”يحتمل أن يكون على حقيقته وإن لم يشاهد أي لم تضعها لتكون وطاء له إذا مشى أو تكف أجنحتها عن الطيران وتنزل لسماع العلم “
ترجمہ: (فرشتوں کے پر بچھانے میں) یہ بھی احتمال ہے کہ ان کا پر بچھانا حقیقی معنی میں ہو، اگرچہ انہیں دیکھا نہ جائے۔ یعنی فرشتے واقعی اپنے پر اس لیے بچھاتے ہیں تاکہ وہ طالب علم کے لیے فرش بن جائیں جب وہ چلے یا اپنے پروں کو اڑنے سے روک دیں اور نیچے آ جائیں تاکہ علم سنیں۔ (حاشیۃ السندی علی سنن ابن ماجہ، جلد01، صفحہ 97، دار الجيل، بيروت)
علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1014ھ/1605ء) لکھتے ہیں:
”قيل: معناه أنها تتواضع لطالبه توقيرا لعلمه كقوله تعالى: {واخفض لهما جناح الذل من الرحمة} [الإسراء: 24] أي: تواضع لهما، أو المراد الكف عن الطيران والنزول للذكر۔۔۔أو معناه المعونة وتيسير المؤنة بالسعي في طلبه أو المراد تليين الجانب والانقياد والفيء عليه بالرحمة والانعطاف “
ترجمہ: یہ بھی کہا گیا کہ: اس سے مراد یہ ہے کہ فرشتے طالب علم کے لیے عاجزی اختیار کرتے ہیں، اس کے علم کی تعظیم کے طور پر، جیساکہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: اور ان کے لیے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی سے، یعنی ان دونوں کے لیے عاجزی کرتے ہوئے، یا اس سے مراد یہ ہے کہ فرشتے اڑنا ترک کر دیتے ہیں اور ذکر (علم ) کے لیے نیچے اتر آتے ہیں یا اس سے مراد یہ ہے کہ فرشتے طالب علم کی مدد کرتے ہیں اور طلبِ علم کی دشواریوں کو آسان کر دیتے ہیں یا اس سے مراد یہ ہے کہ فرشتے نرمی، فرمانبرداری اور مہربانی کے ساتھ اس پر جھکتے ہیں اور اس پر رحمت و شفقت کا سایہ کرتے ہیں۔ (المرقاۃ المفاتیح، جلد01، صفحہ 296، دار الفكر، بيروت)
مفتی محمد احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1391ھ/1971ء)لکھتےہیں: ” ظاہر یہ ہے کہ یہاں حقیقی معنی ہی مراد ہیں کہ جب طالب علم علم میں مشغول ہوتا ہے، تو اس کا کلام سننے کے لیئے ملائکہ نیچے اتر آتے ہیں اور گفتگو سنتے ہیں جیسا تلاوت قرآن کے موقع پر یا قیامت میں طالب علم کے قدموں کے نیچے فرشتے اپنے پر بچھائیں گے یا مطلب یہ ہے کہ طالب علم کے لیئے ملائکہ نیا زمندی کا اظہار کرتے ہیں اور اس کی مشقتوں کو آسان کرتے ہیں۔رب تعالٰی فرماتا ہے: "وَاخْفِضْ لَہُمَاجَنَاحَ الذُّلِّ"۔“ (مراۃ المناجیح، جلد01، صفحہ185، حسن پبلیشر، لاہور)
نوٹ: اسی طرح کے معانی علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے "مرقاۃ الصعود الی سنن ابی داؤد" میں، علامہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے"لمعات التنقیح " میں اور علامہ ابن رسلان مقدسی رحمۃ اللہ علیہ نے "شرح سنن ابی داؤد لابن رسلان " میں بیان فرمائے ہیں۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
فتوی نمبر: OKR- 0121
تاریخ اجراء: 26 ربیع الثانی 1447 ھ/20اکتوبر 2025 ء