 
                دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
ضعیف اور غریب حدیث کیا ہوتی ہے؟ اور کیا ایسی حدیث جو ضعیف یا غریب ہو، اس کو مانا جائے گا یا نہیں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
تعریفات:
حدیث ضعیف: وہ حدیث ہے، جس میں حدیث حسن کی کوئی شرط مفقود ہو۔
غریب حدیث: وہ حدیث ہے، جسے صرف ایک ہی راوی نے بیان کیا ہو۔
احکام:
حدیث غریب کا حکم:
غریب حدیث، صحیح وغیرصحیح، ہرطرح کی ہوسکتی ہے، جیسی ہوگی اسی کے مطابق اس کے احکام ہوں گے۔ التقریب و التیسیرللنووی میں غریب حدیث کے متعلق ہے
و ینقسم الی الصحیح و غیرہ
ترجمہ:غریب حدیث کی صحیح و غیر صحیح ہر طرح کی قسمیں ہوتی ہیں۔ (التقریب و التیسیر، ص 86، دار الکتاب العربی، بیروت)
حدیث ضعیف کاحکم:
فضائلِ اعمال، ترغیب و ترہیب، اور مناقب میں حدیثِ ضعیف بالاتفاق مقبول ہے، جبکہ عقائدو احکام (حلال و حرام وغیرہ) میں مقبول نہیں، ہاں! احتیاطی معاملہ ہو تو اس صورت میں احکام میں بھی ضعیف حدیث مقبول ہوگی۔
حدیث غریب کی تعریف کے متعلق تیسیر مصطلح الحدیث میں ہے
هو ما ينفرد بروايته راو واحد
ترجمہ: وہ (حدیث) جسے صرف ایک ہی راوی روایت کرے۔ (تیسیر مصطلح الحدیث، صفحہ 19، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
حدیث ضعیف کی تعریف کے متعلق مزید اسی میں ہے
هو ما لم يجمع صفة الحسن، بفقد شرط من شروطه
ترجمہ: وہ (حدیث) جو حسن حدیث کی تمام شرائط پوری نہ کر سکے، یعنی جس میں حسن کی کسی شرط کا فقدان ہو۔ (تیسیر مصطلح الحدیث، صفحہ 44، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
فضائل میں حدیث ضعیف کے مقبول ہونے کے متعلق مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے
و هویعمل بہ فی فضائل الاعمال اتفاقا
ترجمہ: اور ضعیف حدیث پر فضائل اعمال میں بالاتفاق عمل کیاجائے گا۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، جلد 2، صفحہ 806، دار الفکر، بیروت)
امام اہلِ سنت امام، احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں: فضائل ومناقب میں باتفاق علماء حدیث ضعیف مقبول و کافی ہے۔۔۔۔ مثلاکسی حدیث میں ایک عمل کی ترغیب آئی کہ جو ایسا کرے گااتنا ثواب پائے گا یا کسی نبی یا صحابی کی خُوبی بیان ہوئی کہ اُنہیں اللہ عزوجل نے یہ مرتبہ بخشا، یہ فضل عطا کیا، تو ان کے مان لینے کوضعیف حدیث بھی بہت ہے، ایسی جگہ صحت حدیث میں کام کرکے اسے پایہ قبول سے ساقط کرنا فرق مراتب نہ جاننے سے ناشی۔ امام ابو زکریا نووی اربعین پھر امام ابن حجر مکی شرح مشکوٰۃ پھر مولانا علی قاری مرقاۃ وحرزثمین شرح حصن حصین میں فرماتے ہیں:
قد اتفق الحفاظ و لفظ الاربعین قداتفق العلماء علی جواز العمل بالحدیث الضعیف فی فضائل الاعمال و لفظ الحرز لجواز العمل بہ فی فضائل الاعمال بالاتفاق
یعنی بیشک حفاظِ حدیث و علمائے دین کا اتفاق ہے کہ فضائلِ اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل جائز ہے۔ (ملخصاً)" (فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ 478، 479، رضا فاؤنڈیشن، لاهور)
عقائدواحکام میں ضعیف حدیث مقبول نہ ہونے کے متعلق "النکت علی مقدمۃ ابن الصلاح" میں ہے
ان الضعيف لايحتج به في العقائد و الاحكام
ترجمہ: بیشک ضعیف حدیثِ پاک کو عقائد اور احکام میں دلیل نہیں بنایا جاسکتا۔ (النکت علی مقدمۃ ابن الصلاح للزرکشی، جلد 2، صفحہ308، مطبوعہ: ریاض)
موضع احتیاط میں احکام میں بھی حدیث ضعیف مقبول ہونے کے متعلق امام اہلسنت، امام احمدرضاخان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: لاجرم علمائے کرام نے تصریحیں فرمائیں کہ دربارہ احکام بھی ضعیف حدیث مقبول ہوگی جبکہ جانب احتیاط میں ہو، امام نووی نے اذکار میں بعد عبادت مذکور پھر شمس سخاوی نے فتح المغیث پھر شہاب خفاجی نے نسیم الریاض میں فرمایا:
اما الاحکام کالحلال و الحرام و البیع و النکاح و الطلاق و غیر ذلك فلایعمل فیھا الا بالحدیث الصحیح او الحسن الا ان یکون فی احتیاط فی شیئ من ذلك کما اذا ورد حدیث ضعیف بکراھۃ بعض البیوع او الانکحۃ فان المستحب ان یتنزہ عنہ و لکن لایجب۔
(یعنی محدثین وفقہا وغیرہم علما فرماتے ہیں کہ حلال وحرام بیع نکاح طلاق وغیرہ احکام کے بارہ میں صرف حدیث صحیح یا حسن ہی پر عمل کیا جائے گا مگر یہ کہ ان مواقع میں کسی احتیاطی بات میں ہو جیسے کسی بیع یا نکاح کی کراہت میں حدیث ضعیف آئے تو مستحب ہے کہ اس سے بچیں ہاں واجب نہیں۔) امام جلیل جلال سیوطی تدریب میں فرماتے ہیں:
و یعمل بالضعیف ایضا فی الاحکام اذا کان فیہ احتیاط۔
(حدیث ضعیف پر احکام میں بھی عمل کیا جائے گا جبکہ اُس میں احتیاط ہو۔) (فتاویٰ رضویہ، جلد 5، صفحہ 496، 497، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد شفیق عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4363
تاریخ اجراء: 02 جمادی الاولٰی 1447ھ / 25 اکتوبر 2025ء