
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
جمعہ کے دن گردنیں پھلانگنے والی جو وعید ہے کیا امام مسجد بھی اس میں شامل ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اگر امام مسجد جمعہ کے دن تاخیر سے آئے اورگردنیں پھلانگے بغیر آگےجانے کا کوئی اور راستہ نہ ہو تو اس کا آگے گردنیں پھلانگتے ہوئے جانا ضرور ت کی وجہ سے جائز ہے، اور حدیث پاک میں جو ممانعت ہے وہ بلاضرورت گر دنیں پھلانگنے پر محمول ہے، لہذا امام اس وعید میں شامل نہیں ہو گا۔ حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی میں ہے
قال الحلبي و ينبغي أن يقيد النهي عن التخطي بما إذا وجد بدا أما إذا لم يجد بدا بأن لم يكن في الوراء موضع و في المقدم موضع فله أن يتخطى اليه للضرورة۔۔۔۔ و ما ذكره في البحر وغيره من أن من وجد فرجة في المقدم له أن يخرق الثاني لأنه لا حرمة لهم لتقصيرهم يحمل على الضرورة أو على عدم الإيذاء أو على الاستئذان قبل خروج الإمام جمعا بين الروايات
ترجمہ: علامہ حلبی نے فرمایا: گردنیں پھلانگنے سے ممانعت کواس صورت کے ساتھ مقیدکرناچاہیے کہ جب آگے جائے بغیرچارہ ہو، بہرحال جب آگے جائے بغیرچارہ ہی نہ ہو مثلاپیچھے جگہ ہی نہ ہو اور آگے جگہ ہو تو ضرورتا گردنیں پھلانگ کروہاں جاسکتا ہے۔ اوروہ جو بحر الرائق وغیرہ میں ذکر کیا کہ "جو اپنے آگے کشادگی پائے تو اسے گردنیں پھلانگ کر آگے جانے کی اجازت ہے کہ ان لوگوں کی کوتاہی کی وجہ سے ان کی کوئی حرمت نہیں" یہ حالت ضرورت پر یاایذاء نہ دینے کی صورت پر یا امام کے نکلنے سے پہلے لوگوں سے اجازت لے کرجانے پر محمول ہے، روایات میں تطبیق دینے کے لیے۔ (طحطاوی علی المراقی، باب الجمعة، ص 523، دار الکتب العلمیۃ)
عمدۃ القاری میں ہے
و قال شارح الترمذي: و يستثنى من التحريم أو الكراهة: الإمام أو من كان بين يديه فرجة لا يصل إليها إلا بالتخطي، و أطلق النووي في (الروضة) استثناء الإمام ومن بين يديه فرجه، و لم يقيد الإمام بالضرورة و لا الفرجة بكون التخطي إليها يزيد على صفين. و قيد ذلك في (شرح المهذب) فقال: فإن كان إماما لم يجد طريقا إلى المنبر والمحراب إلا بالتخطي لم يكره، لأنه ضرورة
ترجمہ: شارح ترمذی نے کہا: حرمت یا کراہت سے مستثنیٰ ہے امام یا وہ شخص جس کے سامنے خالی جگہ ہو، جس تک پہنچنے کا راستہ صرف نمازیوں کے درمیان سے گزرنا ہو۔ امام نووی نے الروضہ میں امام اور جس کے آگے خالی جگہ ہو، دونوں کو مستثنیٰ قرار دیا ہے، اور امام کے لئے ضرورت کی قید نہیں لگائی اور نہ ہی اس خلا کے لئے یہ قید لگائی کہ اس تک پہنچنے کے لئے دو سے زائد صفیں پار کرنی پڑیں۔ لیکن "شرح مہذب" میں اس کی قید لگائی، پس کہا کہ اگر امام ہو اور اسے منبر یا محراب تک پہنچنے کے لیے سوائے گزرنے کے کوئی راستہ نہ ملے، تو یہ مکروہ نہیں، کیونکہ یہ ضرورت ہے۔ (عمدۃ القاری، جلد 6، صفحہ 208، مطبوعہ: بیروت)
فتاویٰ جامعہ اشرفیہ میں علامہ شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ”گردنیں پھلانگنا بلا ضرورت منع ہے اور بضرورت اس کی اجازت ہے۔ مثلاً ایک شخص صف اول میں بیٹھا ہے اس کا وضو ٹوٹ گیا تو گردنیں پھلانگ کر مسجد کے باہر جائے گا پھر وضو کر کے اپنی جگہ پر جائے تو کوئی حرج نہیں، یا فرض کیجئے کہ امام دیر میں آیا، مسجد بھر چکی ہےتو امام لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر محراب میں جائے گا تو (امام کا) یہ جانا بضرورت ہےاس لیے گردن پھلانگ کرجانے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتاویٰ جامعہ اشرفیہ، جلد 5، صفحہ 219، مجلس فقہی، جامعہ اشرفیہ، مبارک پور، یو پی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4226
تاریخ اجراء: 21ربیع الاول1447ھ/15ستمبر2025ء