
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
بخاری شریف میں حدیث پاک ہے کہ حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اللہ کے راستے میں ایک جوڑا (کسی چیز کا) خرچ کیا تو اسے جنت کے داروغہ بلائیں گے، جنت کے ہر دروازے کا داروغہ (اپنی طرف) بلائے گا کہ اے فلاں! اس دروازے سے آ، اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے، یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم! پھر اس شخص کو کوئی خوف نہیں رہے گا، تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے امید ہے کہ تم بھی انہی میں سے ہو گے۔ اس حدیث پاک میں "ایک جوڑا" خرچ کرنے کی فضیلت بیان ہوئی ہے، آپ ارشاد فرمائیں کہ یہاں "جوڑے "سے کیا مراد ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
حدیث پاک میں "جوڑے" سے ایک جنس کی دو چیزیں جیسے دو پیسے، دو روپے، دو کپڑے، دو روٹیاں وغیرہ مراد ہیں، اور یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ دو چیزیں دیں اگرچہ وہ مختلف جنس کی ہوں مثلا ایک درہم اور ایک دینار، ایک دینار اور ایک کپڑا، ایک کپڑا اور ایک جانور۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ زوجین (جوڑے)سے مراد بار بار صدقہ یا دن رات میں صدقہ یا علانیہ اور خفیہ صدقہ مراد ہو۔
سوال میں مذکورحدیث کی شرح میں" المفاتیح فی شرح المصابیح" میں ہے: قوله:
”من أنفق زوجين من شيء من الأشياء"، قد جاء في بعض الروايات: أنه قيل لرسول الله عليه السلام: "وما زوجان؟ قال: فرسان أو عبدان أو بعيران من إبله"؛ معناه: من كل شيء يتصدق به يشفع من ذلك الجنس؛ أي: يعطى شيئين لا شيئا واحدا، فإن أعطى الدرهم يعطى الدرهمين، وإن أعطى ثوبا يعطى ثوبين، وكذلك جميع الأشياء“
ترجمہ: حضور علیہ الصلاۃ والسلام کا فرمان"جس نے اشیاء میں سے کسی شے کا جوڑا خرچ کیا"بعض روایات میں آیا ہے کہ رسول اللہ علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ "زوجان سے کیا مراد ہے" تو فرمایا: دو گھوڑے یا دو غلام یا اپنے اونٹوں میں سے دو اونٹ۔ اس کا معنی یہ ہے کہ جو بھی چیز صدقہ کی جائے، اس کی جنس سے جوڑا صدقہ کیا جائے یعنی دو چیزیں دی جائیں نہ کہ ایک، تو اگر درہم دے تو دو درہم دے، کپڑا دے تو دو کپڑے دے، اور اسی طرح تمام اشیاء ہیں۔ ( المفاتیح فی شرح المصابیح، ج 2، ص 531، دار النوادر، کویت)
المیسر فی شرح مصابیح السنۃ میں ہے:
”ويحتمل أن يراد به تكرار الإنفاق مرة بعد مرة “
ترجمہ: یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے بار بار خرچ کرنے کا تکرار مراد ہو۔ (المیسر فی شرح مصابیح السنۃ، ج 2، ص 442، مکتبہ نزار مصطفی الباز)
نزہۃ القاری شرح صحیح البخاری میں ہے ”من انفق زوجین“ یعنی جو چیز دے وہ دو، دے، مثلا دو درہم دو دینار، دو اونٹ دو گھوڑے وغیرہ وغیرہ، جیسا کہ ابوذر کی حدیث میں خود ان کی تفسیر مذکور ہے، اور یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ دو چیزیں دیں اگرچہ وہ مختلف جنس کی ہوں مثلا ایک درہم اور ایک دینار، ایک دینار اور ایک کپڑا، ایک کپڑا اور ایک جانور، اور انفاق سے بطور نفل خرچ کرنا مراد ہے۔ (نزھۃ القاری شرح صحیح البخاری، ج 3، ص 286، 287، فرید بک سٹال، لاہور)
مراٰۃ المناجیح میں ہے”یعنی ایک جنس کی دو چیزیں جیسے دو پیسے دو روپے دو کپڑے دو روٹیاں وغیرہ۔ لفظ زوج دو کے مجموعہ کو بھی کہتے ہیں اور دو میں سے ہر ایک کو بھی جیسے خاوند بیوی کو زوجین کہتے ہیں، رب تعالٰی فرماتا ہے:
(مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ)
اور ممکن ہے کہ زوجین سے مراد بار بار صدقہ یا دن رات میں صدقہ یا علانیہ اور خفیہ صدقہ مراد ہو۔ مرقات نے فرمایا ہوسکتا ہے کہ صدقہ سے ساری نیکیاں مراد ہوں، دو روزے دو رکعت نماز وغیرہ کیونکہ فقیر کے لیے نفلی نماز و روزہ ایسا ہے جیسے امیر کے لیے خیرات۔" (مراٰۃ المناجیح، ج 3، ص 93، نعیمی کتب خانہ، گجرات)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: ابو شاہد مولانا محمد ماجد علی مدنی
فتوی نمبر: WAT-4277
تاریخ اجراء: 30ربیع الاول1447 ھ/24ستمبر 2520 ء