دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ یہ بات بیان کی جاتی ہے کہ جب کسی مسلمان کے کان میں سیٹی کی سی آواز آتی ہے تو اس کو اس وقت حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام یاد فرما رہے ہوتے ہیں، اس کی کیا حقیقت ہے؟ اس خیال سے درود پاک پڑھنا کیسا؟
پوچھنے کی وجہ یہ ہے کہ میں نے ایک پوسٹ دیکھی جس کی ہیڈنگ میں لکھا تھا ”سلسلہ: من گھڑت احادیث“ پھر اس کے بعد اس میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے یہ بات لکھی تھی کہ جب تم میں سے کسی کے کان بجیں تو مجھ پر درود پڑھے، اس کے بعد لکھا تھا، نوٹ: یہ حدیث من گھڑت ہے، اس خیال سے درود پڑھنا درست نہیں، اس خیال کے بغیر ویسے ہی درود پڑھنا چاہئے۔ برائے مہربانی اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سوال میں ذکر کردہ حدیث پاک ہرگز موضوع و من گھڑت نہیں بلکہ محدثین کے فرمان کے مطابق حدیث ِحسن ہے، یہی وجہ ہے کہ علماء کرام علیہم الرحمۃ نے کان میں سیٹی کی سی آواز آنے کے وقت درود شریف پڑھنا مستحب قرار دیا ہے اور اس کی یہی وجہ ارشاد فرمائی ہے کہ بسا اوقات کسی مسلمان کے کان میں اچانک جو سیٹی کی سی آواز آنا شروع ہوجاتی ہے، یہ حضور نبی کریم رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُس دعا کی صدا ہوتی ہے، جو آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام اپنی امت کیلئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں فرمارہے ہوتے ہیں، بسا اوقات روح اپنی پاکیزگی و نظافت اور ادراک کی تیزی کی وجہ سے اس آواز کا ادراک کرلیتی ہے، جس کی وجہ سے کان میں سر سراہٹ سی محسوس ہوتی ہے، لہٰذا جب اس آواز کو کوئی سنے تو اس کو چاہئے کہ حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پاک پڑھے۔ لہٰذا سوال میں ذکر کردہ پوسٹ میں جو کہا گیا کہ ”یہ حدیث من گھڑت ہے، اس خیال سے درود پڑھنا درست نہیں “ یہ درست نہیں ۔
کان بجنے کے وقت درود شریف پڑھنے کے متعلق حدیث پاک:
مسند البزار، عمل الیوم و اللیلۃ لابن السنی، الدعوات الکبیر للامام البیہقی اور معجم کبیر للامام الطبرانی میں حضرت سیدنا ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
”قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: إذا طنت أذن أحدكم فليذكرني، وليصل علي، وليقل: ذكر الله بخير من ذكرني به“
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کسی کے کان بجنے لگیں تو وہ مجھے یاد کرے اور مجھ پر درود پڑھے اور یوں کہے کہ جس نے مجھے بھلائی کے ساتھ یاد کیا ہے، اللہ اس کو بھلائی کے ساتھ یاد کرے۔ (مسند البزار، ج09، ص 328، مطبوعہ قاھرۃ)( عمل الیوم و اللیلۃ لابن السنی، ج01، ص 140، مطبوعہ بیروت)( الدعوات الکبیر للامام البیھقی، ج02، ص 84، غراس للنشر والتوزيع – الكويت)(المعجم الکبیر للامام الطبرانی، ج01، ص 321، مطبوعہ قاھرۃ)
امام زین الدین عبد الرؤو ف بن تاج العارفین مناوی شافعی علیہ الرحمۃ تیسیر شرح جامع صغیر میں حدیث مذکور کی شرح میں لکھتے ہیں:
”(إذا طنت) أي صوتت (أذن أحدكم) أيها الأمة (فليذكرني) بأن يقول محمد رسول الله أو نحو ذلك (وليصل علي) أي يقول صلى الله وسلم عليه أو اللهم صل وسلم على محمد أو نحو ذلك (وليقل ذكر الله من ذكرني بخير)“
ترجمہ: اے امت! جب تم میں سے کسی کے کان بجیں یعنی ان میں آوازیں آئیں تو اس کو چاہئے کہ وہ مجھے یاد کرے، اس طرح کہ وہ کہے محمد رسول اللہ یا اسی کی مثل دوسرے الفاظ اور چاہئے کہ مجھ پر درود پڑھے یعنی یوں کہے ”صلی اللہ و سلم علیہ“ یا ” اللھم صل و سلم علی محمد “ یا اسی کی مثل دوسرے الفاظِ درود اور پھر کہے کہ جس نے مجھے بھلائی کے ساتھ یاد کیا ، اللہ اس کو یاد فرمائے۔ (التیسیر شرح الجامع الصغیر، ج01، ص 114، مكتبة الإمام الشافعي - الرياض)
ذکر کردہ حدیث طنین الاذن کے موضوع نہ ہونے اور حسن ہونے کے متعلق محدثین کرام کی عبارات:
امام ابو الحسن علی بن ابوبکر ہیثمی علیہ الرحمۃ مجمع الزوائد میں حدیث مذکور کے متعلق لکھتے ہیں:
”رواه الطبراني في الثلاثة، والبزار باختصار كثير، وإسناد الطبراني في الكبير حسن“
ترجمہ: اس حدیث کو امام طبرانی نے معاجم ثلاثہ ( معجم کبیر و صغیر و اوسط) میں روایت کیا ہے اور امام بزار نے بھی اس کو مختصراً روایت کیا ہے اور امام طبرانی کی معجم کبیر والی اسناد حسن ہے۔ (مجمع الزوائد و منبع الفوائد، ج10، ص 138، مكتبة القدسي، القاهرة)
امام زین الدین مناوی شافعی علیہ الرحمۃ فیض القدیر شرح جامع صغیر میں اور امام ابو الفداء اسماعیل بن محمد عجلونی دمشقی علیہ الرحمۃ کشف الخفاء میں لکھتے ہیں،
واللفظ للامام المناوی: ”قال الهيثمي: إسناد الطبراني في الكبير حسن. أه. وبه بطل قول من زعم ضعفه فضلا عن وضعه بل أقول: المتن صحيح فقد رواه ابن خزيمة في صحيحه باللفظ المذكور عن أبي رافع المزبور وهو ممن التزم تخريج الصحيح وبه شنعوا على ابن الجوزی“
ترجمہ: امام ہیثمی علیہ الرحمۃ نے اس روایت کے متعلق فرمایا کہ طبرانی کی معجم کبیر والی سند حسن ہے اور اسی سے اس کا قول باطل ہوگیا جس نے اس حدیث کے ضعیف ہونے کا گمان کیا، چہ جائیکہ اس کو موضوع قرار دیا جائے، بلکہ میں کہتا ہوں کہ متنِ حدیث صحیح ہے ، کیونکہ اس کو امام ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں لفظ مذکور کے ساتھ حضرت ابو رافع صحابی مذکور سے روایت کیا ہے اور امام ابن خزیمہ وہ ہیں جنہوں نے اپنی صحیح میں صحیح حدیث کی تخریج کا التزام کیا ہے اور اسی وجہ سے محدثین نے ابن جوزی علیہ الرحمۃ پر سختی فرمائی۔(فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، ج01، ص 399، المكتبة التجارية الكبرى، مصر)
علامہ عجلونی علیہ الرحمۃ کے الفاظ یہ ہیں:
”وقد رواه ابن خزيمة في صحيحه عن أبي رافع، وهو ممن التزم الصحيح وبه شنعوا على ابن الجوزي في زعمه أنه موضوع“
ترجمہ: اور اس حدیث کو امام ابن خزیمہ نے بھی اپنی صحیح میں ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور ابن خزیمہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے صحیح روایت کا التزام کیا ہے، اور اسی وجہ سے علما نے ابن جوزی پر نکیر کی کہ انہوں نے اسے موضوع (من گھڑت) کہا تھا۔ (کشف الخفاء و مزیل الالباس، ج01، ص 117، المكتبة العصرية)
محدث جلیل علامہ علی قاری حنفی علیہ الرحمۃ الاسرار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ میں حدیث مذکور کو ذکر کرکے لکھتے ہیں:
”فكل حديث في طنين الأذن كذب قلت رواه الحكيم وابن السني والطبراني والعقيلي وابن عدي عن أبي رافع كذا في الجامع الصغير للسيوطي والتزم أن لا يكون فيه موضوع وذكره الجزري أيضا في الحصن والتزم أن لا يكون فيه إلا صحيح“
ترجمہ: تو کان بجنے پر درود پڑھنے کے متعلق ہر حدیث جھوٹ ہے، میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کو حکیم ترمذی، ابن سنی، طبرانی، عقیلی اور ابن عدی نے حضرت ابو رافع سے روایت کیا ہے، اسی طرح یہ حدیث امام جلال الدین سیوطی کی جامع صغیر میں بھی ہے اور امام سیوطی نے جامع صغیر میں یہ التزام کیا ہے کہ اس میں کوئی حدیث موضوع نہ ہو اور اس کو امام جزری نے بھی حصن حصین میں لکھا ہے اور انہوں نے اس کتاب میں التزام کیا ہے کہ اس میں صرف صحیح حدیث شامل کی جائے۔ (الاسرار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ ، ج01، ص 441، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)
کان بجنے کے وقت درود شریف پڑھنے کے استحباب اور اس کی وجہ کے متعلق فقہاء و شارحین کرام کی عبارات:
اس کے مستحب ہونے کے متعلق، علامہ ابو سعید محمد بن محمد خادمی حنفی علیہ الرحمۃ بریقہ محمودیہ میں اور علامہ سید ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ مطالع المسرات شرح دلائل الخیرات کے حوالے سے رد المحتار میں ارشاد فرماتے ہیں:
”نص العلماء على استحبابها في مواضع: يوم الجمعة وليلتها۔۔ وعند طنين الأذن، وعند نسيان الشيء“
ترجمہ: علماء کرام نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ چند جگہوں میں درود پاک پڑھنا مستحب ہے، جمعہ کے دن اور رات اور کان بجنے کے وقت اور کسی چیز کو بھول جانے کے وقت۔ (بریقۃ محمودیۃ فی شرح طریقۃ محمدیۃ، ج04، ص 46، مطبعة الحلبي)(رد المحتار علی الدر المختار، ج02، ص 281، مطبوعہ کوئٹہ)
کان بجنے کے وقت درود شریف پڑھنا کیوں مستحب ہے ؟ اس کے متعلق، امام زین الدین مناوی علیہ الرحمۃ تیسیر شرح جامع صغیر میں لکھتے ہیں:
”فإن الأذن إنما تطن لما ورد على الروح من الخبر الخير وهو أن المصطفى قد ذكر ذلك الانسان بخير في الملأ الأعلى في عالم الأرواح“
ترجمہ: کیونکہ کان اس وقت بجتے ہیں جب کہ روح پر کوئی اچھی خبر وارد ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس انسان کو عالم ارواح میں ملاء اعلیٰ میں بھلائی کے ساتھ یاد کیا ہے۔ (التیسیر شرح الجامع الصغیر، ج01، ص 114، مكتبة الإمام الشافعي )
امام ابو عبد اللہ محمد بن علی حکیم ترمذی علیہ الرحمۃ نوادر الاصول فی احادیث الرسول میں پھر امام زین الدین مناوی شافعی علیہ الرحمۃ فیض القدیر شرح جامع صغیر میں لکھتے ہیں،
واللفظ للآخر : ”وذلك لأن الأرواح ذات طهارة ونزاهة ولها سمع وبصر وبصرها متصل ببصر العين ولها سطوع في الجو تجول وتحول. ثم تصعد إلى مقامها الذي منه بدأت فإذا تخلصت من شغل النفس أدركت من أمر الله ما يعجز عنه البشر فهما ولولا شغلها رأت العجائب. لكنها تدنست بما تلبست فتوسخت بما تقمصت من ثياب اللذات وتكدرت بما تشربت من كأس حب الخطيئات ورسول الله صلى الله عليه وسلم لما قبض قيل له إلى أين؟ قال: إلى سدرة المنتهى. فهو مشتغل هناك يقول رب أمتي أمتي حتى ينفخ في الصور النفخة الأولى أو الثانية فطنين الأذن من قبل الروح تجده لخفتها و طهارتها و سطوعها و شوقها إلى المقام الذي فيه المصطفى صلى الله تعالى عليه وعلى آله وسلم فإذا طنت الأذن فانظر لما جاءت من الخير فلذلك قال فليصل علي لأنه ذكره عند الله في ذلك الوقت وطلب منه شيئا استوجب به الصلاة فيصلي عليه إذا لحقه فلذلك حكم بمشروعية الصلاة عليه عند طنين الأذن كما شرعت الصلاة عليه عند خدر الرجل“
ترجمہ: یہ اس لیے ہے کہ روحیں پاکیزگی اور صفائی والی حقیقت رکھتی ہیں، ان کے پاس سننے اور دیکھنے کی قوت بھی ہوتی ہے، اور ان کی بصارت آنکھ کی بصارت سے جڑی ہوئی ہے۔ روح میں ایک روشنی اور چمک ہے جس کے ساتھ وہ فضا میں حرکت کرتی اور گھومتی پھرتی ہے، پھر یہ روحیں اپنے اس مقام پر لوٹتی ہیں جہاں سے ان کی ابتداء ہوئی تھی۔ جب وہ نفس کے مشاغل سے آزاد ہوجاتی ہیں تو اللہ کے بعض ایسے امور کو سمجھ لیتی ہیں جن کو عام انسان سمجھنے سے عاجز رہتے ہیں۔ اگر یہ دنیاوی مشاغل اور آلودگیاں نہ ہوتیں تو وہ عجیب و غریب چیزوں کا مشاہدہ کرتیں۔ لیکن چونکہ وہ نفسانی تعلقات کے ساتھ آلودہ ہوگئیں، کیونکہ وہ لذتوں کے لباس میں ملبوس ہو گئیں اور گناہوں کی محبت کے جام نوش کرنے کی وجہ سے آلودہ ہو گئیں، اس لیے وہ اپنے کمال سے پیچھے رہ گئیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بوقت وصال جب پوچھا گیا: کہاں تشریف لے جائیں گے؟ تو آپ نے فرمایا: سدرة المنتہیٰ کی طرف تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں موجود ہیں اور دعا کرتے ہیں: "اے رب! میری امت، میری امت۔"یہاں تک کہ صور کا پہلا یا دوسرا نفخہ ہوگا۔چنانچہ کان کا بجنا روح کی طرف سے ہے، جس کو وہ اپنی لطافت، پاکیزگی، روشنی اور اس مقام کی طرف شوقِ وصال کی بنا پر پالیتی ہے، جہاں مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود ہیں۔ پس جب کان بجیں تو اس خیر پر غور کرو جس کی بشارت آئی ہے۔ اسی لیے آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ایسے وقت میں مجھ پر درود بھیجو، کیونکہ اس لمحے اللہ کے ہاں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا ذکر کیا ہوتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کیلئے کچھ طلب فرمایا ہوتا ہے، لہٰذا آپ علیہ السلام اس بات کے مستحق ہیں کہ اس وقت آپ پر درود پڑھا جائے، اس لیے کان بجنے کے وقت درود شریف پڑھنے کو مشروع قرار دیا گیا ہے، جیسے پاؤں میں سنسنی ہونے پر درود پڑھنے کو مشروع قرار دیا گیا ہے۔ ( نوادر الاصول فی احادیث الرسول، ج04، ص 175، دار الجيل - بيروت) ( فیض القدیر ، ج01، ص 399، المكتبة التجارية الكبرى - مصر)
حکیم ترمذی علیہ الرحمۃ کی عبارت کے آخر میں الفاظ یوں ہیں:
”فهذا وما أشبهه مكرمات الموحدين من ولد آدم عليه السلام“
ترجمہ: تو یہ اور اس جیسے دیگر فضائل اولادِ آدم علیہ السلام میں سے مسلمانوں کے لیے کرامتوں یعنی عزت افزائیوں میں سے ہیں۔ (نوادر الاصول فی احادیث الرسول، ج04، ص 175، دار الجيل - بيروت)
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فتاوٰی رضویہ شریف میں ارشاد فرماتے ہیں: ” بعض روایات میں ہے کہ حضور ارشاد فرماتے ہیں: جب انتقال کروں گا صور پھونکنے تک قبر میں امتی امتی پکاروں گا۔ کان بجنے کا یہی سبب ہے کہ وہ آواز جانگداز اس معصوم عاصی نواز کی جو ہروقت بلند ہے، گاہے ہم سے کسی غافل ومدہوش کے گوش تک پہنچتی ہے، روح اسے ادراک کرتی ہے، اسی باعث اس وقت درود پڑھنا مستحب ہوا کہ جو محبوب ہرآن ہماری یا دمیں ہے، کچھ دیر ہم ہجراں نصیب بھی اس کی یاد میں صَرف کریں۔“ (فتاوٰی رضویہ، ج30، ص 712، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: HAB-0640
تاریخ اجراء: 01ربیع الثانی 1447ھ/25ستمبر 2025 ء