کیا خبرِ واحد حجت ہے؟

خبر واحد حجت ہے یا نہیں؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ کیا ”خبرِ واحد“ حجت ہے؟ نیز آج کل بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم صرف قرآن اور سنتِ متواترہ کو مانتے ہیں، خبرِ واحد تو محض قصے کہانیاں ہیں، جن پر دین کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔ ان لوگوں کا یہ مؤقف شرعی طور پر کیسا ہے؟ قرآن و سنت اور اجماعِ امت کی روشنی میں تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

آیاتِ قرآنیہ، احادیثِ طیبہ، اجماعِ صحابہ اور بالعموم اجماعِ امت کی روشنی میں”خبرِ واحد حجت“ ہے۔ عقائد وعبادات سے متعلقہ بے شمار تفصیلات اِنہی اخبارِ آحاد سے ثابت ہوتی ہیں، لہذا یہ دعویٰ کہ صرف قرآن اور سنتِ متواترہ ہی حجت ہیں اور خبرِ واحد محض قصے کہانیاں ہیں، درحقیقت دین کی بنیادوں پر ایک شدید حملہ ہے، جسے علماءِ امت نےقرونِ اُولیٰ سے ہمیشہ مسترد کیا ہے۔ یہ نعرہ لگانے والے اسے اپنی طرف سے بڑا علمی اور محتاط قرار دیتے ہیں ، نیز ایسا نظریہ رکھنے والے اپنی تحریر وتقریر میں بڑے شاطرانہ انداز میں اِسے ثابت کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں، لیکن درحقیقت اِس کی آڑ میں شریعت کے ایک وسیع اور ناگزیر حصے کا انکار مقصود ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی شریعت کی عملی تفصیلات کا غالب ترین حصہ مثلاً نماز و زکوٰۃ کے کثیر احکام، تجارتی معاملات اور اخلاقیات کی ان گنت جزئیات، ہمیں خبرِ واحد کے ذریعے ہی موصول ہوئی ہیں، لہٰذا خبرِ واحد کو دین سے خارج کرنا محض ایک علمی اختلاف نہیں، بلکہ شریعت کے پورے عملی ڈھانچے کو منہدم کرنے کے مترادف ہے۔ اسی لیے اِس باطل نظریے کو ہمیشہ ایک خطرناک فکری مغالطہ اور فتنہ قرار دیا گیا اور بالکل شروع میں ہی جب معتزلہ اور قدریہ نے یہ نظریات پیش کیے تو اُن کا زبردست رَدّ کیا گیا، کیونکہ یہ بالواسطہ دین کی قابلِ عمل صورت کو معاذاللہ بالکل مسخ کرکے محض چند مجمل اصولوں تک محدود کر دینے کی کوشش تھی، جس کا اُس زمانے میں علماء و فقہاء نے زبردست رد کیا۔

قرآن اور خبر واحد کی حجیت:

قرآنِ حکیم کی کثیر آیات ہیں، جو شخص واحد کی خبر کے معتبر اور قابلِ اعتماد وعمل ہونے کو ثابت کرتی ہیں۔ محدثین اور اصولیین نے اپنی کتابوں میں مختلف آیات کو نقل کیا ہے، بلکہ مشہور اُصولی فخر الاسلام علامہ بزدوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اِس حد تک دعویٰ فرمایا:

هذا في كتاب اللہ أكثر من أن يحصى۔

ترجمہ: خبرِ واحد کی قبولیت وحجیت کی قرآنِ حکیم میں اِتنی مثالیں ہیں کہ جنہیں شمار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ (اصول البزدوی مع کشف الاسرار، باب خبر الواحد، جلد 02، صفحہ 372، مطبوعہ اسطنبول)

مختلف آیات اور اُن سے خبر واحد کی حجیت کے مطالعہ کے لیے متن ”اُصول البزدوی“ اور شرح ”کشف الاسرار“ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ ذیل میں فقط ایک آیت اور اُس سے استشہاد نقل کیا جائے گا۔

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

﴿فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآىٕفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا اِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَ﴾

ترجمہ کنز العرفان: تو ان میں ہر گروہ میں سے ایک جماعت کیوں نہیں نکل جاتی تاکہ وہ دین میں سمجھ بوجھ حاصل کریں اورجب اِن کی طرف واپس آئیں تووہ اِنہیں ڈرائیں تاکہ یہ ڈر جائیں۔ (پ 11، التوبۃ: 122)

آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے ”حذر“ یعنی خبردار ہونے اور بچنے کا حکم دیا ہے اور خبردار ہونا ہمیشہ کسی ایسی چیز سے ہوتا ہے، جس پر عمل کرنا واجب یا جس سے بچنا لازم ہو، چونکہ دین سیکھ کر آنے والے گروہ کی بات سن کر خبردار ہونا واجب ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ ان کی پیش کردہ بات پر عمل کرنا بھی واجب ہوا اور کلمہِ ”طائفۃ“ ایک شخص کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، لہذا ثابت ہوا کہ ایک قابلِ اعتماد شخص کی بات بھی شریعت میں حجت ہے اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے، چنانچہ اِس آیت کے تحت شیخ نور الدین عِتر حلبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1442ھ/ 2020ء) نے ”کشف الاسرار“ کی عبارت کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے لکھا:

فإن الحذر إنما يكون من الواجب، والكريمة دلت على الحذر فيكون الأخذ بمقتضى أخبار الطائفة واجبا، و الطائفة من كل فرقة لا تبلغ مبلغ التواتر، بل الطائفة على ما قال ابن عباس رضي اللہ عنه تشمل الواحد و الجماعة

ترجمہ: ہر گروہ سے نکلنے والی جماعت تواتر کی حد تک نہیں پہنچتی، بلکہ جماعت، جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: ایک فرد اور ایک گروہ دونوں کو شامل ہے۔ (خبر الواحد الصحيح وأثره في العمل و العقيدة، الصفحۃ 165، مطبوعۃ مجلۃ التراث العربی، دمشق)

کلمہِ ”طائفۃ“ پر مشتمل دو آیتوں کو بطورِ مثال پیش کرتے ہوئے علامہ عبدالعزیز بخاری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 730ھ / 1330ء) نے لکھا:

قيل لواحد، و هو الأصح فإن المراد من قوله تعالى:{وَ لْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ} [النور: 2] . الواحد فصاعدا كما قال قتادة، و كذا نقل في سبب نزول قوله تعالى: {وَ اِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا} [الحجرات: 9]. أنهما كانا رجلين أنصاريين بينهما مدافعة في حق فجاء أحدهما إلى النبي دون الآخر

 ترجمہ:”طائفہ“ کا اطلاق ایک فرد پر بھی کیا گیا ہے، اور یہی قول زیادہ صحیح ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فرمان

وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ

سے مراد ایک یا ایک سے زائد افراد ہیں، جیسا کہ حضرت قتادہ نے فرمایا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے اس فرمان:

وَ اِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا،

کے شانِ نزول میں بھی یہی منقول ہے کہ وہ درحقیقت دو انصاری شخص تھے، جن کے درمیان ایک حق کے معاملے پر جھگڑا ہوا تھا؛ چنانچہ ان میں سے ایک نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ دوسرا نہیں آیا۔ (كشف الأسرار عن أصول فخر الإسلام البزدوي، جلد 2، صفحۃ 372، مطبوعۃ اسطنبول)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور خبر واحد:

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عملاً درجنوں بلکہ سینکڑوں مواقع پر شخصِ واحد کی خبر کو مختلف اُمور میں قبول فرمایا ہے، مثلاً (1)حضرت بریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کی خبر کہ ”یہ ہدیہ ہے“ کو قبول فرمایا۔(2) حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کھجوریں لائے، تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا کہ یہ کیا ہے، عرض کی: ہدیہ، تو آپ نے خبر قبول کی اور اُن کو تناول فرمایا۔ (3) حضرت ام سلمیٰ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کی ہدیہ کے متعلق خبر کو قبول فرمایا۔ (4) مختلف ممالک کے بادشاہ اپنے قاصدوں ذریعے ہدایا بھیجا کرتے اور آپ اُن قاصدوں کی بات پر اعتماد کرتے ہوئے ہدایا قبول فرماتے۔ (5) آپ مختلف غلاموں کی دعوتوں کو قبول فرماتے، کہ جب وہ اپنے متعلق خبر دیتے کہ ہم ”عبدِ ماذون“ ہیں۔ (6) کفار کے علاقوں کی طرف بھیجے گئے جاسوسوں کی خبروں کو قبول فرمایا کرتے تھے۔ (كشف الأسرار، جلد 2، صفحۃ 373، مطبوعۃ اسطنبول)

یہ سب واقعات تو بذاتِ خود آپ کے خبرِ واحد قبول فرمانے کے ہیں۔ دوسری طرف دیکھیں تو تواتر سے ایسے شواہد بھی ملتے ہیں کہ آپ نے بالخصوص شخص واحد کو امورِ تبلیغیہ کے لیے مختلف علاقوں میں بھیجا۔ ظاہری بات ہے کہ اُس مبلغ نے بحیثیتِ شخص واحد ہی دین کی باتیں پہنچانی تھیں۔ اب اگر اُس کی اَخبار معتبر اور قابلِ عمل ہی نہ ہوتی، تو اُسے تبلیغ کے لیے کیوں بھیجا جاتا، چنانچہ (1) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو یمن کی طرف امیر بنا کر بھیجا۔ (2) اُن کے بعد حضرت معاذ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو بھی احکام و شریعت کی تعلیم کے لیے یمن کا امیر بنا کر بھیجا۔ (3)حضرت دحیہ بن خلیفہ کلبی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو اپنا خط دے کر روم میں قیصر یا ہرقل کی طرف بھیجا۔ (4) حضرت عتاب بن اسید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو مکہ کی طرف شریعت سکھانے والا امیر بنا کر بھیجا۔(5) حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو اپنا خط دے کر کسریٰ کی طرف بھیجا۔ (6) حضرت عمرو بن امیہ ضمری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو حبشہ کی طرف بھیجا۔ (7) حضرت عثمان بن العاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو طائف کی طرف بھیجا۔ (8)حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو اسکندریہ کے حاکم مقوقس کی طرف بھیجا۔ (9) حضرت شجاع بن وهب اسدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو دمشق میں حارث بن ابی شمر غسانی کی طرف بھیجا۔ (10) حضرت سلیط بن عمرو عامری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو یمامہ میں ہوذہ بن خلیفہ کی طرف بھیجا۔ (11) اور صلح حدیبیہ کے سال حضرت عثمان بن عفان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو اہل مکہ کی طرف روانہ کیا۔ (كشف الأسرار، جلد 2، صفحۃ 373، مطبوعۃ اسطنبول)

مختلف علاقوں کی طرف بھیجے جانے والے اِن سب صحابہ کرام کے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 852ھ/ 1449ء) نے لکھا:

والأخبار طافحة بأن أهل كل بلد منهم كانوا يتحاكمون إلى الذي أمر عليهم و يقبلون خبره ويعتمدون عليه من غير التفات إلى قرينة

ترجمہ:اس بارے میں بہت زیادہ روایات ہیں کہ ہر شہر والے اپنے فیصلے اسی تنہا شخص کے پاس لاتے تھے، کہ جسے اُن پر امیر مقرر کیا گیا ہوتا تھا، نیز وہ شہر والے اس کی خبر کو قبول کرتے اور کسی بھی قرینہ کی طرف توجہ کیے بغیر اُس کی کہی بات پر اعتماد کرتے تھے۔ (فتح الباری شرح صحیح بخاری جلد 13، صفحہ 235، مطبوعۃ مصر)

صحابہ کرام اور خبرِ واحد کی حجیت:

صحابہ کرام کی زندگیوں میں خبر واحد کو قبول کرنا اور پھر اُس پر عمل اِس کثرت سے ثابت ہے کہ جس کا شمار ممکن نہیں، اِس کی بہت بڑی مثال مدینہ منورہ میں اہلِ قباء کا محض ایک شخص کی خبر پر عمل کرتے ہوئے دورانِ نماز اجتماعی طور پر اپنا قبلہ تبدیل کرنا ہے۔ ”صحیح البخاری“ میں ہے:

بينا الناس بقباء في صلاة الصبح، إذ جاءهم آت فقال: إن رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم قد أنزل عليه الليلة قرآن، وقد أمر أن يستقبل الكعبة، فاستقبلوها، و كانت وجوههم إلى الشام، فاستداروا إلى الكعبة

ترجمہ: لوگ قباء میں فجر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اتنے میں ایک آنے والا آیا۔ اس نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ پر کل وحی نازل ہوئی ہے اور انہیں کعبہ کی طرف رُخ کرنے کا حکم ہو گیا ہے۔ چنانچہ اُن اہلِ قباء نے بھی کعبہ مشرفہ کی جانب رخ کر لیے، جب کہ اُس وقت وہ حالتِ نماز میں شام کی جانب منہ کئے ہوئے تھے، چنانچہ وہ سب کعبہ شریف کی جانب گھوم گئے۔ (صحیح البخاری، جلد 01، صفحہ 89، مطبوعہ دار طوق النجاۃ، بیروت)

اِس نوعیت کے واقعات بکثرت ہیں، نیز اِس پر اجماعِ صحابہ بھی ہے، چنانچہ ”مسلَّم الثبوت“ میں ہے:

ثانيا إجماع الصحابة وفيهم علي، بدليل ما تواتر عنهم من الاحتجاج و العمل به في الوقائع التي لا تحصى من غير نكير، و ذلك يوجب العلم عادة

ترجمہ: خبر واحد کے حجت ہونے پر دوسری دلیل صحابہ کرام کا اجماع ہے، جن میں حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بھی شامل ہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ ان سے بے شمار واقعات میں خبرِ واحد سے دلیل پکڑنا اور اس پر عمل کرنا تواتر سے ثابت ہے اور اس پر کسی نے انکار نہیں کیا اور یہ بات عادتاً یقینی علم کا فائدہ دیتی ہے۔ (مسلم الثبوت مع شرحہ فواتح الرحموت، جلد 02، صفحۃ 163، مطبوعۃ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

یہاں چند احادیث نقل کی جاتی ہیں کہ جن میں خبر واحد کو قبول کر کے اُس پر عمل کیا گیا ہے۔

(1) عن أنس بن مالك رضي اللہ عنه قال: «كنت أسقي أبا عبيدة و أبا طلحة و أبي بن كعب من فضيخ زهو وتمر فجاءهم آت، فقال: إن الخمر قد حرمت، فقال أبو طلحة: قم يا أنس فأهرقها، فأهرقتُها

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ میں ابو عبیدہ، ابو طلحہ اور ابی بن کعب کو کچی اور پکی کھجوروں سے بنی نبیذ پلا رہا تھا کہ ان کے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے کہا: بیشک شراب حرام کر دی گئی ہے۔تو ابو طلحہ نے فرمایا: اے انس! اٹھو اور اسے بہا دو، چنانچہ میں نے اسے بہا دیا۔ (صحیح البخاری، جلد 07، صفحہ 105، مطبوعہ دار طوق النجاۃ، بیروت)

اِس روایت کے تحت علامہ بدرالدین عینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 855ھ/ 1451ء) لکھتےہیں:

و هو حجة قوية في قبول خبر الواحد لأنهم أثبتوا نسخ الشيء الذي كان مباحا حتى أقدموا من أجله على تحريمه والعمل بمقتضى ذلك

ترجمہ: یہ خبرِ واحد کے قبول کیے جانے پر ایک نہایت قوی دلیل ہے، کیونکہ صحابہ کرام نے (ایک شخص کی خبر پر) ایک مباح چیز کے منسوخ ہونے کو تسلیم کیا، یہاں تک کہ اس کی بنیاد پر اسے حرام قرار دیا اور اس کے تقاضے کے مطابق عمل کیا۔ (عمدۃ القاری، جلد 25، صفحہ 16، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی، بیروت)

(2) عن عمر قال: كنت أنا وجار لي من الأنصار في بني أمية بن زيد، و هي من عوالي المدينة، و كنا نتناوب النزول على رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم؛ ينزل يوما، و أنزل يوما، فإذا نزلت جئته بخبر ذلك اليوم من الوحي و غيره، وإذا نزل فعل مثل ذلک

ترجمہ: حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں اور انصار میں سے میرا ایک پڑوسی، بنو امیہ بن زید کے محلے میں رہتے تھے اور یہ مدینہ کے بالائی علاقوں میں سے ہے۔ ہم نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں باری باری حاضر ہوتے تھے؛ وہ ایک دن حاضر ہوتا اور میں ایک دن۔ تو جب میں حاضر ہوتا تو اُس کے پاس اُس دن کی وحی اور دیگر امور کی خبر لے کر آتا اور جب وہ حاضر ہوتا، تو وہ بھی اسی طرح کرتا۔ (صحیح البخاری، جلد 01، صفحہ 29، مطبوعہ دار طوق النجاۃ، بیروت)

اِس روایت کےتحت ”فتح الباری“ میں ہے:

في هذا الحديث الاعتماد على خبر الواحد

ترجمہ: اس حدیث میں خبرِ واحد پر اعتماد کرنے (اور اسے معتبر سمجھنے) کی دلیل ہے۔ (فتح الباری شرح صحیح بخاری جلد 01، صفحہ 186، مطبوعۃ مصر)

(3) عن سعد بن أبي وقاص، عن النبي صلى اللہ عليه وسلم: «أنه مسح على الخفين» وأن عبد اللہ بن عمر سأل عمر، عن ذلك فقال: نعم، إذا حدثك شيئا سعد عن النبي صلى اللہ عليه و سلم فلا تسأل عنه غيرہ

ترجمہ: حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نبی کریم ﷺسے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے موزوں پر مسح کیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہما نے حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے اس بارے میں پوچھا، تو انہوں نے فرمایا: ہاں، جب سعد تمہیں نبی کریم ﷺ سے کوئی روایت بیان کرے، تو اس کے بارے میں کسی اور سے مت پوچھنا۔ (صحیح البخاری، جلد 01، صفحہ 51، مطبوعہ دار طوق النجاۃ، بیروت)

اِس روایت کے تحت ”اللامع الصبیح بشرح الجامع الصحیح“ میں ہے:

في كلام عمر مدح عظيم لسعد، و دليل على العمل بخبر الواحد

ترجمہ: حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے اس قول میں حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے لیے بہت زیادہ تعریف ہے اور ساتھ ہی خبرِ واحد پر عمل کرنے کی دلیل بھی موجود ہے۔ (اللامع الصبیح بشرح الجامع الصحیح، جلد 2، صفحہ 274، مطبوعہ دار النوادر، سوریا)

خبر واحد کی حجیت ہی وہ مؤقف ہے، جو ہمیشہ سے امت مسلمہ اور سلف وخلف کے جمہور علماء کا رہا ہے۔ یہاں اُن تمام علماء وفقہاء کی انفرادی عبارات نقل کرنے کا محل نہیں، البتہ جامعیت کے ساتھ شیخ نور الدین عتر رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتےہیں:

ذلك هو ما ذهب إليه جماهير العلماء من السلف والخلف، ومنهم الأئمة الأربعة و سائر فقهاء الأمصار، لم يشذ عن ذلك إلا نفر قليل جدا من أهل العلم في العصور السالفة ممن لم يكونوا أئمة في علوم الدين

ترجمہ: یہی وہ مؤقف ہے جسے سلف و خلف میں سے جمہور علماء نے اختیار کیا ہے، جن میں ائمہ اربعہ اور دیگر تمام علاقوں کے فقہاء بھی شامل ہیں۔ گزشتہ ادوار میں اس رائے سے صرف چند گنتی کے اہل علم نے ہی اختلاف کیا ہے، جو دینی علوم میں امامت کے درجے پر فائز نہیں تھے۔ (خبر الواحد الصحيح و أثره في العمل و العقيدة، الصفحۃ 163، مطبوعۃ مجلۃ التراث العربی، دمشق)

حاصل کلام یہ ہے کہ قرآن و سنت اور اجماعِ صحابہ سے پیش کردہ دلائل کی روشنی میں، خبرِ واحد کا حجتِ شرعیہ ہونا ایک ثابت شدہ اور ناقابلِ انکار اصول ہے۔ اسے دین سے خارج کرنے کا مطلب اسلام کے پورے عملی ڈھانچے کو منہدم کرنا ہے۔ نماز و زکوٰۃ کے کثیر احکام اور ان کی تفصیلی شرائط، یونہی رمضان کے روزوں کو توڑنے اور نہ توڑنے والے امور، حج کے مناسک کی ترتیب اور دیگر عبادات و معاملات سے متعلق ہزارہا احکام، یہ سب ہمیں خبرِ واحد کے ذریعے ہی ملے ہیں۔ اگر اس ذریعے سے حاصل ہونے والے علم کو حجت نہ مانا جائے تو یہ تمام عبادات نہایت مبہم تصورات بن کر رہ جائیں گی، لہذا اِس کھلی حقیقت کے باوجود بھی جو خبرِ واحد کو کہانی اور داستان کہتا پھرے اور اِس کی حجیت کا انکار کرے، اُس سے بڑھ کر دین کے لئے نقصان دہ کون ہوگا، چنانچہ ”اصول البزدوی“ میں ہے:

من الناس من أنكر العلم، بطريق الخبر أصلا، و هذا رجل سفيه لم يعرف نفسه، و لا دينه، و لا دنياه ولا أمه، و لا أباه مثل من أنكر العيان

ترجمہ: لوگوں میں سے جو خبر واحد کے ذریعے حصولِ علم کا سرے سے انکار کرے، وہ ایک ایسا بیوقوف شخص ہے، جو نہ اپنے آپ کو پہچانتا ہے، نہ اپنے دین کو، نہ اپنی دنیا کو، نہ اپنی ماں کو اور نہ ہی اپنے باپ کو۔ اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو آنکھوں دیکھی حقیقت کا انکار کرے۔ (اصول البزدوی مع کشف الاسرار، جلد 02، باب خبر الواحد، صفحہ 362، مطبوعہ اسطنبول)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-9413

تاریخ اجراء: 27 محرم الحرام 1447ھ / 23 جولائی 2025ء