کسی کے سبب کوئی چیز حرام کردی جانے کے متعلق حدیث کی وضاحت

کسی آدمی کی وجہ سے کوئی چیز حرام کردی جانے کے متعلق حدیث کی وضاحت

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

اس حدیث پاک کی وضاحت فرما دیں : "سب سے بڑا مجرم وہ مسلمان ہے جس نے کسی ایسی چیز کے متعلق پوچھا جو حرام نہیں تھی اور اس کے سوال کرنے کی وجہ سے و ہ حرام کر دی گئی ۔"

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

(1)بہت سی باتیں ایسی ہیں کہ قرآن و حدیث میں ان کو کرنے کا حکم یا ان سےممانعت بیان نہیں ہوئی لیکن اگر ان کو کرنے کا حکم دیا جاتا تو فرض ہوجاتیں اور اگر ممانعت کی جاتی توحرام ہوجاتیں، پھر جو انہیں چھوڑتا یا کرتا تو گناہ میں پڑتا، لہذا لوگوں کو مشقت سے بچاتے ہوئے ان کے متعلق کچھ بھی بیان نہیں ہوا اور پھر لوگوں کو بھی حکم دے دیا گیا کہ ان کے متعلق کچھ نہ پوچھو کہ پوچھو گے تو پھران کے مناسب حکم دیا جائے گا اور تم مشقت میں پڑوگے۔

اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے

﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْــٴَـلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْۚ-وَ اِنْ تَسْــٴَـلُوْا عَنْهَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْؕ-عَفَا اللّٰهُ عَنْهَاؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ﴾

ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو ایسی باتیں نہ پوچھو جو تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بُری لگیں اور اگر انہیں اس وقت پوچھو گے کہ قرآن اتر رہا ہے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی اللہ انہیں معاف فرماچکا ہے اور اللہ بخشنے والا حِلم والا ہے۔ (سورۃ المائدۃ،پ07،آیت 101)

یہ آیت مبارکہ ذکر کرنے کے بعد امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: "بہت سی باتیں ایسی ہیں کہ ان کا حکم دیتے تو فرض ہوجاتیں اور بہت ایسی کہ منع کرتے تو حرام ہوجاتیں پھر جو انہیں چھوڑتا یا کرتا گناہ میں پڑتا، اس مالک مہربان نے اپنے احکام میں اُن کا ذکرنہ فرمایا یہ کچھ بھول کر نہیں کہ وہ تو بھول اور ہرعیب سے پاک ہے بلکہ ہمیں پر مہربانی کے لئے کہ یہ مشقت میں نہ پڑیں تو مسلمانوں کو فرماتا ہے تم بھی ان کی چھیڑ نہ کرو کہ پوچھو گے حکم مناسب دیاجائے گا اور تمہیں کودقّت ہوگی۔"(فتاوی رضویہ، ج07، ص582،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

(2)اسی طرح کوئی حکم مطلق ہوکہ: "ایساکرو" تو اب اگر مطلق طور پر ایک مرتبہ بھی اسے کرلیا جائے تو حکم پر عمل ہوگیا لیکن اب بلاوجہ اس کے متعلق قیودات وغیرہ پوچھنامنع ہے کہ کہیں اس کے قیودات پوچھنے سے وہ مطلق حکم مقیدنہ ہوجائے مثلاحج کے متعلق حکم ہواکہ: "تم پرحج فرض کیا گیا ہے لہذا حج کرو۔"اس پر کسی نے سوال کیا کہ کیا ہر سال حج فرض ہے، اس کے باربار سوال کرنے پر فرمایا: "اگرمیں ہاں!کہہ دیتا تو ہرسال حج فرض ہوجاتا اور تم میں اس کی طاقت نہیں ہونی تھی، لہذا جب تک میں کچھ بیان نہ کروں تم بھی کچھ نہ پوچھو ۔"

صحیح مسلم میں ہے

" عن أبي هريرة، قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: «أيها الناس قد فرض الله عليكم الحج، فحجوا»، فقال رجل: أكل عام يا رسول الله؟ فسكت حتى قالها ثلاثا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لو قلت: نعم لوجبت، ولما استطعتم"، ثم قال: «ذروني ما تركتكم، فإنما هلك من كان قبلكم بكثرة سؤالهم واختلافهم على أنبيائهم، فإذا أمرتكم بشيء فأتوا منه ما استطعتم، وإذا نهيتكم عن شيء فدعوه»"

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے لوگو! اللہ تعالی نے تم پر حج فرض کیا ہے پس تم حج ادا کرو، تو ایک شخص نے کہا: یارسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم! کیا ہر سال فرض ہے؟ تو آپ علیہ الصلوۃ والسلام خاموش رہے یہاں تک کہ اس نے تین بار یہی سوال کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال واجب ہو جاتا اور تم اس کی استطاعت نہ رکھتے۔ پھر فرمایا: تم مجھے اسی بات پر رہنے دو جس پر میں تمہیں چھوڑ دوں، بے شک تم سے پہلے لوگ کثرتِ سوال اور اپنے انبیاء(علی نبیناوعلیہم الصلوۃ والسلام) سے اختلاف کی وجہ سے ہی ہلاک ہوئے، پس جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو اسے اپنی استطاعت کے مطابق بجا لاؤ اور جب میں تمہیں کسی چیز سے منع کروں تو اس سے دور رہو۔(صحیح مسلم،کتاب الحج،ج02،ص975،داراحیاء التراث العربی،بیروت)

اس کی ایک مثال "بنی اسرائیل اورگائے" والا واقعہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں صرف یہ حکم دیا تھا کہ گائے ذبح کر کے اس کا ٹکڑا مقتول کو مارو، وہ زندہ ہو کر خود اپنے قاتل کا بتائے گا، تو اگر وہ کوئی سی بھی گائے ذبح کر دیتے تو عمل ہو جاتا لیکن وہ طرح طرح کے سوالات میں پڑ گئے کہ اس کا رنگ کیسا ہو؟ عمر کتنی ہو؟ وغیرہ، تو انہیں ان سوالات کے جوابات میں ایسی گائے کا حکم دیا گیا کہ جس کا رنگ پیلا ہو، جوان ہو، کبھی بھی کھیتی باڑی میں اسے استعمال نہ کیا گیا ہو، جوانہیں بڑی بھاری قیمت ادا کرکے اور بڑی مشقت کے بعدحاصل ہوئی۔

لہذا بلاوجہ محض کریدنے کے طور پر سوالات کرنے کو عظیم جرم قرار دے دیا گیا کہ اس کی وجہ سے سارے مسلمان مشقت میں پڑیں گے لیکن اگر کسی کو واقعی کسی ضروری حکم کی وضاحت پوچھنی ہوکہ جس کے متعلق اسے علم نہ ہو یا کوئی اور مخفی علمی فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہو تو وہ اس وعید میں شامل نہیں ہوگا۔

مشكاة المصابيح میں یہ حدیث پاک ان الفاظ کے ساتھ مذکور ہے :

"وَعَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صلى الله عليه وسلم: «أَن أعظم الْمُسلمين فِي المسلمين جُرْمًا مَنْ ‌سَأَلَ ‌عَنْ ‌شَيْءٍ ‌لَمْ ‌يُحَرَّمْ على النَّاس فَحرم من أجل مَسْأَلته"

 حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں میں سے سب سے بڑا جرم اس مسلمان کا ہے کہ جو ایسی چیز کے بارے میں سوال کرتاہے جو لوگوں پر حرام نہیں تھی، پس اس کے سوال کرنے کی وجہ سے وہ حرام کر دی گئی ۔ (مشكاة المصابيح، جلد1، صفحہ 55، المكتب الإسلامي ، بيروت)

معالم السنن میں اس روایت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:

 قال الشيخ: هذا في مسألة من يسأل عبثاً وتكلفاً فيما لا حاجة به إليه دون من سأل سؤال حاجة وضرورة كمسألة بني إسرائيل في شأن البقرة وذلك أن الله سبحانه أمرهم أن يذبحوا بقرة فلو استعرضوا البقر فذبحوا منها بقرة لأجزأتهم. كذلك قال ابن عباس رضي الله عنه في تفسير الآية فما زالوا يسألون ويتعنتون حتى غلظت عليهم وأمروا بذبح البقرة على النعت الذي ذكره الله في كتابه فعظمت عليهم المؤنة ولحقتهم المشقة في طلبها حتى وجدوها فاشتروها بالمال الفادح فذبحوها وما كادوا يفعلون.وأما من كان سؤاله استبانة لحكم واجب واستفادة لعلم قد خفي عليه فإنه لا يدخل في هذا الوعيد وقد قال سبحانه

{فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون} [الأنبياء: 7] .

ترجمہ: شیخ نے فرمایا کہ یہ اس شخص کے سوال کے بارے میں ہے جو بغیر کسی ضرورت کے فضول اور تکلف پر مبنی سوال کرے، نہ کہ اس شخص کے بارے میں جو اپنی حاجت و ضرورت کے متعلق سوال کرے جیسا کہ بنی اسرائیل کا گائے کے بارے میں سوال کرنا، اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیا، پس اگر وہ کوئی سی بھی گائے لے کر اس کو ذبح کردیتے تو وہ ضرور ان کو کفایت کر جاتی۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے، پس وہ سوالات کرتے رہے اور شرارت کرتے رہے یہاں تک کہ ان پر سختی کی گئی اور ان کو ایسی گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا، جس کی صفات اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ذکرفرمائیں، پس ان کا خرچہ بھی زیادہ ہوا اور اس گائے کو تلاش کرنے میں بھی مشقت بھی ہوئی یہاں تک کہ انہوں نے وہ تلاش کر لی اور اس کو بھاری قیمت سے خرید کر اس کو ذبح کیا اور وہ ذبح کرتے معلوم نہ ہوتے تھے۔ اور بہرحال جس کا سوال کسی واجب حکم کی وضاحت کے لیے ہو یا اس علم سے استفادہ کے لئے ہو جو اس پر مخفی ہے تو وہ شخص اس وعید میں داخل نہیں ہو گا کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا: اے لوگو! علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہ ہو۔(معالم السنن،ج04،ص301 ،302، مطبوعہ:حلب)

علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ مرقاة المفاتيح میں لکھتے ہیں :

"وَإِنَّمَا كَانَ أَعْظَمَ جُرْمًا لِتَعَدِّي جِنَايَتِهِ إِلَى جَمِيعِ الْمُسْلِمِينَ"

ترجمہ : وہ سب سے بڑا مجرم اس لیے ہے کیونکہ اس کی اس خطا کا اثر تمام مسلمانوں تک پہنچتا ہے۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، جلد1، صفحہ 239، دار الفكر، بيروت)

سوال میں ذکر کی گئی حدیث کی شرح کرتے ہوئے مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ "مراٰۃ المناجیح " میں لکھتے ہیں : "یہاں روئے سخن اُن قیل قال والوں کی طرف ہے جنہیں بلاضرورت ہر بات کرید کرنے کی عادت ہوتی ہے ورنہ مسائل سیکھنے کے لیے سوال اچھی چیز ہے۔ رب تعالی فرماتا ہے:

"فَاسْـَٔلُوۡۤا اَھلَ الذِّکْرِ اِنۡ کُنۡتُمْ لَا تَعْلَمُوۡنَ "

لہذا یہ حدیث قرآن کے خلاف نہیں اور پوچھ گچھ سے مراد نبی سے پوچھنا ہے کیونکہ حرام و حلال کے احکام اسی بارگاہ سے جاری ہوتے ہیں، جیسے حضور نے فرمایا کہ تم پر حج فرض ہے ایک صحابی نے پوچھا کیا ہر سال؟ فرمایا کہ اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال ہی فرض ہوجاتا۔یہ ہیں مضر سوالات۔ " (مراٰۃ المناجیح ، جلد1، صفحہ 157، نعیمی کتب خانہ، گجرات )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3961

تاریخ اجراء:28ذوالحجۃالحرام1446ھ/25جون2025ء