
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:
اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ وَ الْخَبِیْثُوْنَ لِلْخَبِیْثٰتِۚ- وَ الطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَ الطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبٰتِۚ-
ترجمہ کنز الایمان: گندیاں گندوں کے لیے اور گندے گندیوں کے لیے اور ستھریاں ستھروں کے لیے اور ستھرے ستھریوں کے لیے۔ (پارہ 18، سورہ نور، آیت 26)
اس آیت مبارکہ سے بظاہر یہ بات پتہ چلتی ہے کہ گندی بد کردار عورت نیک صالح آدمی کی بیوی نہیں ہو سکتی، اسی طرح بدکردار گندہ شخص کسی صالحہ عورت کا شوہر نہیں ہوسکتا، مگر ہم اپنے اردگرد کئی ایسے نکاح دیکھتے ہیں جس میں معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے کہ یا تو عورت بظاہر صالحہ متقیہ ہوتی ہے مگر اس کا شوہر بدکردار ہوتا ہے، اسی طرح بعض اوقات مرد نیک صالح ہوتا ہے مگر اس کی عورت کا کردار اچھا نہیں ہوتا۔ اسی طرح اس آیت مبارکہ کے تناظر میں کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ فرعون کی بیوی حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا تھیں، جو کہ نیک صالحہ خاتون تھیں، جبکہ فرعون ایسا نہیں تھا۔ لہذا اس حوالے سے رہنمائی فرمادیں کہ آیت مبارکہ کا مطلب و مفہوم کیا ہے؟ نیز لوگوں کا اپنی طرف سے قرآنی آیات کا معنی و مفہوم نکالنا کیسا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
قرآن پاک کی ترغیب و ترہیب اور نصیحتوں سے نیز اللہ تعالیٰ کی شان کے بیان اور انبیاء و صالحین کے واقعات سے اور اسی طرح نافرمانوں کے احوال و انجام سے عبرت و نصیحت تو عمومی طور پر ہرکوئی حاصل کرسکتا ہے لیکن تفسیر و تشریح اور تعبیر و تاویل کےلئے اچھی خاصی صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں۔ ایسی جگہوں پر اپنی رائے سے قرآن پاک کی تفسیر کرنا سخت کبیرہ گناہ ہے اور ایسے شخص کے لیے حدیث مبارکہ میں جہنم کی وعید بیان ہوئی ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ قرآن پاک کی آیات کو سمجھنے کے لیے معتبر و مستند علمائے کرام کی طرف رجوع کیا جائے اور مستند صحیح العقیدہ مفسرین عظام رحمۃ اللہ علیہم کی تفاسیر کا مطالعہ کیا جائے۔
سوال میں بیان کردہ آیت مبارکہ کی وضاحت
سوال میں مذکور آیت مبارکہ کی تفسیر میں مفسرین کرام کے دو طرح کے اقوال ہیں؛
(1)جلیل القدر مفسر ین ، امام مجاہد ،امام ابن جبیر ،امام طبری ،امام عطاء وغیرہم اکثر مفسرین رحمۃ اللہ علیہم نے فرمایا کہ ؛ آیت مبارکہ
اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ وَ الْخَبِیْثُوْنَ لِلْخَبِیْثٰتِۚ-
سے مراد یہ ہے کہ گندی باتیں گندے لوگوں کا وطیرہ ہیں اور گندے لوگ گندی باتوں کے درپے ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ آیت مبارکہ اس وقت نازل ہوئی جب منافقین نے حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ، طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کے بارے توہین آمیز جملے بولے اور آپ پر نعوذ باللہ تہمت لگائی تھی تو اس موقع پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی کہ گندہ خبیث آدمی گندی باتیں ہی کرتا ہے اور گندی باتیں گندے لوگوں کے ہی لائق ہیں، حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا جیسی عظیم ہستی کے لیے ایسی گھٹیا باتیں لائق نہیں ہیں کیونکہ آپ تو پاک و طیب ہیں، لہذا آپ کی ذات کے لیے اچھی اور ستھری باتیں لائق ہیں۔ تفاسیر کی روشنی میں یہی قول تاویل کے اعتبار سے احسن اور اولی ہے۔
(2) دوسرا قول یہ بیان کیا گیا کہ آیت سے مراد یہ ہے کہ گندی عورت گندے مرد کے لیے اور گندا مرد گندی عورت کے لیے ہے، لیکن یہ حکم اکثری ہے کلی نہیں۔
مذکورہ تفسیری اقوال کی روشنی میں صورت مسئولہ کا جواب
اوپر بیان کردہ مفسرین کے اقوال کی روشنی میں پوچھی گئی صورت کا حکم واضح ہوگیا کہ اگر آیت مبارکہ سے مراد پہلا معنی لیا جائے جیساکہ جمہور مفسرین نے لیا کہ یہاں مراد اچھی اور بری باتیں ہیں، تو اس معنی کے پیشِ نظر آیت مبارکہ کو لے کر یہ سوال نہیں بنتا کہ نیک صالحہ عورت کا شوہر بدکردار کیسے ہوسکتا ہے یا نیک صالح شخص کی بیوی بدکردار کیسے ہوسکتی ہے۔ نیز اس تفسیر کی روشنی میں یہ اعتراض بھی ختم ہوجاتا ہے کہ حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا فرعون کے نکاح میں کیوں تھیں۔
اور اگر آیت مبارکہ سے مراد دوسرا معنی بھی لیا جائے کہ "گندے مردوں کے لیے گندی عورتیں ہیں" تو چونکہ یہ حکم کلی نہیں ہے، بلکہ اکثری ہے ،یعنی ایسا نہیں ہے کہ جو بھی برا مرد ہوگا اسے بری عورت ہی ملے گی اور ہر بری عورت کے لیے برا مرد ہوگا، لہذا اس تفسیر کے مطابق بھی کوئی اشکال نہیں بنتا۔ مذکورہ بالا گفتگو سے نتیجہ یہ نکلا کہ آیت مبارکہ کا مطلب و مفہوم بالکل واضح ہے، اس پر کسی بھی قسم کا اشکال نہیں ہوتا۔
جزئیات:
اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ وَ الْخَبِیْثُوْنَ لِلْخَبِیْثٰتِۚ- وَ الطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَ الطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبٰتِۚ-
ترجمہ کنز الایمان: گندیاں گندوں کے لیے اور گندے گندیوں کے لیے اور ستھریاں ستھروں کے لیے اور ستھرے ستھریوں کے لیے۔ (پارہ 18، سورہ نور، آیت 26)
امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 310ھ / 923ء) مذکورہ آیت مبارکہ کے تحت لکھتے ہیں:
اختلف أهل التأويل في تأويل ذلك، فقال بعضهم: معناه الخبيثات من القول للخبيثين من الرجال، و الخبيثون من الرجال للخبيثات من القول، و الطيبات من القول للطيبين من الناس، والطيبون من الناس للطيبات من القول۔۔۔ نزلت في الذين قالوا في زوجة النبيّ صلى الله عليه و سلم ما قالوا من البهتان
ترجمہ: اہل تاویل علماء کرام نے اس آیت مبارکہ کی تاویل میں اختلاف کیا۔ بعض علماء کرام نے فرمایا کہ کہ اس آیت مبارکہ کا معنی یہ ہے کہ بری باتیں برے لوگوں کا وطیرہ ہیں اور برے لوگ بری باتوں کے درپے ہوتے ہیں۔ اور اچھی باتیں اچھے لوگوں کو سزاوار ہیں اور اچھے لوگ اچھی باتیں کرتے ہیں۔ یہ آیت مبارکہ ان لوگوں کے بارے نازل ہوئی جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ کے بارے بہتان بازی کی۔ (تفسیر طبری، جلد 19، صفحہ 142، مطبوعہ مکۃ المکرمۃ)
آیت مبارکہ کی تفسیر میں دوسرا قول بیان کرتے ہوئےتفسیر طبری میں ہی ہے کہ:
وقال آخرون: بل معنى ذلك: الخبيثات من النساء للخبيثين من الرجال، والخبيثون من الرجال للخبيثات من النساء۔۔۔قال: نزلت في عائشة حين رماها المنافق بالبهتان ، فبرأها الله من ذلك. و كان عبد الله بن أُبيّ هو خبيث، وكان هو أولى بأن تكون له الخبيثة ويكون لها، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم طيبا، و كان أولى أن تكون له الطيبة، وكانت عائشة الطيبة
ترجمہ: بعض دوسرے علماء تاویل نے فرمایا کہ اس آیت مبارکہ کا معنی یہ ہے کہ گندی عورتیں گندے مردوں کے لیے اور گندے مرد گندی عورتوں کے لیے ہیں۔ یہ آیت مبارکہ اس وقت نازل ہوئی جب منافق نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان باندھا، تو اللہ پاک نے آپ کی براءت کا اعلان فرمایا۔ عبد اللہ بن ابی منافق خبیث تھا اور اس کے لیے یہی سزوار تھا کہ اس کے لیے گندی عورت ہو اور وہ اُس کے لیے ہو۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو طیب ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شایان شان یہی ہے کہ آپ کی زوجہ بھی طیبہ ہو اور حضرت عائشہ طیبہ ہیں۔ (تفسیر طبری، جلد 19، صفحہ 144، مطبوعہ مکۃ المکرمۃ)
اکثر مفسرین کرام کاپہلا قول ہے کہ آیت مبارکہ سے مراد اچھا، بُرا کلام ہے، چنانچہ تفسیر بغوی میں لکھا ہے:
قال أكثر المفسرين: الخبيثات من القول والكلام للخبيثين من الناس. {والخبيثون} من الناس، {للخبيثات} من القول، [والكلام]، {والطيبات} من القول، {للطيبين} من الناس، {والطيبون} من الناس، {للطيبات} من القول، والمعنى: أن الخبيث من القول لا يليق إلا بالخبيث من الناس والطيب لا يليق إلا بالطيب من الناس، فعائشة لا يليق بها الخبيثات من القول لأنها طيبة رضي الله عنها فيضاف إليها طيبات الكلام من الثناء الحسن
ترجمہ:اکثر مفسرین نے فرمایا کہ بری باتیں برے لوگوں کا وطیرہ ہیں اور برے لوگ بری باتوں کے درپے ہوتے ہیں۔اور اچھی باتیں اچھے لوگوں کو سزاوار ہیں اور اچھے لوگ اچھی باتیں کرتے ہیں۔ آیت مبارکہ سے مراد یہ ہے کہ گندی بات گندے شخص کو سزاوار ہے اور اچھی بات اچھے شخص کو۔ لہذا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شان کے لائق بری باتیں نہیں ہیں، کیونکہ آپ پاک اور ستھری ہیں، لہذا آپ کی طرف باتیں بھی پاک اور ستھری منسوب کی جائیں۔ (تفسیر بغوی، جلد 6، صفحہ 28، دار طيبة للنشر و التوزيع)
اسی طرح تفسیر قرطبی اور تفسیر خازن میں ہے:
و اللفظ للقرطبی ”و قال مجاهد و ابن جبير و عطاء و أكثر المفسرين: المعنى الكلمات الخبيثات من القول للخبيثين من الرجال، و كذا الخبيثون من الناس للخبيثات من القول۔۔۔ وهذا من أحسن ما قيل في هذه الآية“
ترجمہ: امام مجاہد، ابن جبیر، عطاء اور اکثر مفسرین فرماتے ہیں: کہ آیت مبارکہ سے مراد یہ ہے کہ گندی باتیں گندے مردوں کے لیے ہیں اور اسی طرح گندے مرد گندی باتوں کے درپے ہوتے ہیں۔ اور یہی احسن ہے جو اس آیت مبارکہ کے بارے کہاگیا۔ (تفسیر قرطبی، جلد 12، صفحہ 211، مطبوعہ قاھرۃ)
تفسیر طبری میں ہے کہ:
و أولى هذه الأقوال في تأويل الآية قول من قال: عنى بالخبيثات: الخبيثات من القول ۔۔ ۔ و إنما قلنا هذا القول أولى بتأويل الآية؛ لأن الآيات قبل ذلك إنما جاءت بتوبيخ الله للقائلين في عائشة الإفك۔۔ ۔ ملتقطا
ترجمہ: آیت مبارکہ کی تاویل میں مروی ان اقوال میں سے زیادہ اولی اس کا قول ہے جس نے کہا "الخبیثات" سے مراد گندی باتیں ہیں۔ اور بے شک ہمارا یہ کہنا کہ آیت کی تاویل میں یہ قول اولی ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ اس سے پہلے والی آیات وہ اللہ پاک کی طرف سے ان لوگوں کو ڈانٹ ڈپٹ کے لیے نازل ہوئیں جنہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے جھوٹی تہمت لگائی تھی۔ (تفسیر طبری، جلد 19، صفحہ 144، مطبوعہ مکۃ المکرمۃ)
دوسرا معنی مراد لیں تو اس صورت میں حکم اکثری ہے کلی نہیں، جیسا کہ قاضی محمد ثناء اللہ حنفی مظہری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1225ھ / 1810ء) لکھتے ہیں:
الخبيثات من النساء للخبيثين من الرجال يعنى غالبا و الخبيثون من الرجال للخبيثات من النساء- و الطيبات من النساء للطيبين من الرجال و الطيبون من الرجال للطيبات من النساء يعنى في الأغلب
ترجمہ: گندی عورتیں گندے مردوں کے لیے ہے یعنی اکثر طور پر اور گندے مرد گندی عورتوں کے لیے۔ نیک عورتیں نیک مردوں کے لیے اور نیک مرد نیک عورتوں کے لیے ہیں اکثر طور پر۔ (تفسیر مظہری، جلد 6، صفحہ 485، مطبوعہ پاکستان)
تفسیر بالرائے کا حکم:
قرآن پاک کی تفسیر اپنی رائے سے کرنا سخت گناہ ہے، ترمذی شریف کی حدیث مبارک میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
من قال في القرآن برأيه: فليتبوأ مقعده من النار
ترجمہ: جس نے بغیر علم قرآن کی تفسیر کی وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنائے۔ (سنن ترمذی، باب ما جاء في الذي يفسر القرآن برأيه، ج 5، ص 66، دار الغرب الاسلامی، بیروت)
جو علم نہیں رکھتا، اس کے لئے حکم ہے کہ وہ اہل علم سے پوچھ لے، جیسا کہ قرآن پاک میں ہے:
﴿فَسْئَـلُـوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾
ترجمہ کنز العرفان: اے لوگو!اگر تم نہیں جانتے تو علم والوں سے پوچھو۔ (القرآن، پارہ 14، سورۃ النحل، آیت: 43)
اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیرروح المعانی میں ہے:
و استدل بھا ایضاً علی وجوب المراجعۃ للعلماء فیما لا یعلم
ترجمہ: اس آیت سے اس بات پر استدلال کیا گیاہے کہ جس چیز کا علم نہ ہو، اس میں علماء سے رجوع کرنا واجب ہے۔ (تفسیر روح المعانی، سورۃ النحل، تحت الآیۃ: 43، ج 7، ص 387، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: OKR-0027
تاریخ اجراء: 16 محرم الحرام 1447ھ / 11 جولائی 2025 ء