
مجیب:مولانا سید مسعود علی عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-1949
تاریخ اجراء:29ربیع الاول1446ھ/04اکتوبر2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
قرآن میں ہے کہ جنت میں شراب پلائی جائے گی جبکہ دنیا میں حرام ہے کیا جو اور چیزیں دنیا میں حرام ہیں، وہ بھی جنت میں حلال ہو جائیں گی؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جنت کی شراب پاک اور طیب ہے، وہ جنت میں جنتیوں کے لئے ہوگی ، یہ دنیاوی شراب نہیں ہوگی ، لہٰذا یہ مطلب نکالنا درست نہیں کہ جو چیزیں دنیا میں حرام ہیں ، وہ جنت میں حلال ہوجائیں گی،واضح رہے کہ جنت میں نہ تو گناہ ہوں گے اور نہ کسی قسم کی بے حیائی اور نہ جنتی لوگ اس کی تمناکریں۔
باقی وہاں کیا کیاہوگا جب جائیں گے بتادیں گے ، بندہ مومن کو زیادہ فکر اس کی ہونی چاہئے کہ میں جنت میں کیسے جاؤں گا ، کن کاموں کو کرکے جنت کماؤں گا ، ان کاموں کو کرنا شروع کرے۔
اللہ پاک فرماتا ہے: (یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِكَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍ(45)بَیْضَآءَ لَذَّةٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ(46)لَا فِیْهَا غَوْلٌ وَّ لَا هُمْ عَنْهَا یُنْزَفُوْنَ(47)) ترجمہ کنز العرفان : ان پر دورہ ہوگا نگاہ کے سامنے بہتی شراب کے جام کا سفید رنگ پینے والوں کے لیے لذت نہ اس میں خُمار ہے اور نہ اس سے ان کا سر پھرے۔(سورۃ الصفت، آیت 45۔46۔47)
اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے : ”اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات میں ا یمان والے مخلص بندوں کو جنت میں ملنے والی شراب اور ا س کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں،چنانچہ ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جنتی شراب کی پاکیزہ نہریں ان کی نگاہوں کے سامنے جاری ہوں گی اور وہ خالص شراب ہوگی جس کے جام کے ان پر دَور ہوں گے، اس شراب کے اوصاف یہ ہیں۔ (1)دودھ سے بھی زیادہ سفید رنگ کی شراب ہوگی۔ (2)پینے والوں کے لیے لذت بخش ہوگی، جبکہ دنیا کی شراب میں یہ وصف نہیں بلکہ وہ بدبودار اور بدذائقہ ہوتی ہے اور پینے والا اس کو پیتے وقت منہ بگاڑتا رہتا ہے۔ (3)جنتی شراب میں خُمار نہیں ہے جس سے عقل میں خلل آئے۔ (4)جنتی اس شراب سے نشے میں نہیں آئیں گے۔ جبکہ دنیا کی شراب میں یہ اوصاف نہیں بلکہ اس میں بہت سے فسادات اور عیب ہیں،اس سے پیٹ میں بھی درد ہوتا ہے اور سر میں بھی، پیشاب میں بھی تکلیف ہوجاتی ہے، طبیعت متلانے لگتی ہے، قے آتی ہے، سر چکراتا ہے اور عقل ٹھکانے نہیں رہتی۔“ (تفسیرصراط الجنان، جلد 8،صفحہ 309، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
برهان الدين کرمانی المعروف تاج القراء رحمۃ اللہ علیہ(المتوفی505ھ) فرماتے ہیں:” (وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الْأَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْأَعْيُنُ) وأما المعاصي فتصرف عن شهواتهم“یعنی اور جنت میں وہ تمام چیزیں ہوں گی جن کی ان کے دل خواہش کریں گے اور جن سے آنکھوں کو لذت ملے گی اور رہی بات گناہوں کی، تو وہ جنتیوں کی خواہشات سے دور کردئیے جائیں گے۔ (غرائب التفسير وعجائب التأويل ، جلد2، صفحہ 811،مطبوعہ:مؤسسۃ علوم القرآن، بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
قرآن خوانی میں بلند آواز سے تلاوت کرنا کیسا ہے؟
قرآن کریم میں مشرق اور مغرب کے لیے مختلف صیغے کیوں بولے گئے؟
کیا تلاوت قرآن کے دوران طلباء استاد کے آنے پرتعظیماًکھڑے ہو سکتے ہیں؟
قرآن کریم کو رسم عثمانی کے علاوہ میں لکھنا کیسا؟
عصر کی نماز کے بعدتلاوت کا حکم
لیٹ کر قرآن پڑھنا کیسا ؟
قرآ ن خوانی کے بعد کھانا یا رقم لینا دینا کیسا ؟
قرآن پاک کو تصاویر والے اخبار کے ساتھ دفن کرنا کیسا ؟