مہر کی کم سے کم مقدار حدیث سے ثابت ہے؟

مہر کی کم سے کم مقدار کا حدیث پاک سے ثبوت

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے ایک مسئلہ پڑھا تھا کہ مہر کی کم از مقدار دس درہم ہے۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اس مقدار پر کوئی حدیث بھی موجود ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جی ہاں! مہر کی کم از کم مقدار حدیث پاک میں دس درہم بیان ہوئی اور یہی بات حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم اجمعین سے بھی مروی ہے۔

مصنف ابن ابی شیبہ، سنن كبری للبیہقی، کنز العمال اور سنن دارقطنی میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

 أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال: لا صداق دون عشرة دراهم‘‘

یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مہر دس درہم سے کم نہیں۔  (سنن دار قطنی، جلد 4، صفحہ 358، مطبوعہ  مؤسسة الرسالہ، بيروت)

البحر الرائق وتبیین الحقائق میں ہے:

و النظم للآخر“ حديث جابر :{ لا مهر أقل من عشرة دراهم،} رواه الدارقطني وفيه مبشر بن عبيد وحجاج بن أرطاة وهما ضعيفان عند المحدثين لكن البيهقي رواه من طرق وضعفها في سننه الكبير والضعيف إذا روي من طرق يصير حسنا يحتج به ذكره النووي في شرح المهذب

 یعنی حضرت جابر رضی اللہ کی حدیث: ”مہر دس درہم سے کم نہیں“ اس کو امام دار قطنی نے روایت کیا اور اس کی سند میں مبشر بن عبید اور حجاج بن ارطاۃ ہیں، یہ دونوں محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں، لیکن امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے کئی طرق سے روایت کیا اور اپنی سنن کبری میں ضعیف قرار دیا اور ضعیف حدیث جب کئی طرق سے مروی ہو تو وہ حسن ہوجاتی ہے جو کہ حجت ہے، اس بات کو امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح المہذب میں ذکر کیا۔  (تبیین الحقائق، جلد 2، صفحہ 137، مطبوعہ: قاہرہ)

علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ مہر کے متعلق حدیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

لا يخفى أن تعدد الطرق يرقى إلى مرتبة الحسن، وهو كاف في الحجية

یعنی مخفی نہیں ہے کہ تعددِ طرق حدیث کو مرتبۂ حسن تک پہنچا دیتے ہیں اور وہ حجت ہونے میں کافی ہے۔ (فتح باب العنایۃ، جلد2، صفحہ 51، مطبوعہ: بیروت)

علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

رواه البيهقي بسند ضعيف و رواه ابن أبي حاتم وقال الحافظ ابن حجر: إنه بهذا الإسناد حسن كما في فتح القدير في باب الكفاءة

 یعنی اس حدیث کو امام بیہقی نے ضعیف سند سے روایت کیا اور ابنِ ابی حاتم نے بھی اس حدیث کو روایت کیا اور حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: یہ حدیث اس اسناد سے حسن ہے، جیسا کہ فتح القدیر باب الکفاءۃ میں ہے۔ (رد المحتار، جلد 4، صفحہ 220، مطبوعہ: کوئٹہ)

سننِ دار قطنی، سننِ کبری للبیھقی، مصنف عبد الرزاق اورمصنف ابنِ ابی شیبہ میں امام شعبی سے اور وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، فرمایا:

لا يكون المهر أقل من عشرة دراهم

یعنی مہر دس درہم سے کم نہیں ہوگا۔ (المصنف لعبد الرزاق، جلد6، صفحہ 179، مطبوعہ: المکتب الاسلامی)

اس بات کو نقل کرنے کے بعد علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ عمدۃ القاری میں فرماتے ہیں:

والظاهر أنه قال توفيقا لأنه باب لا يوصل إليه بالاجتهاد والقياس

یعنی ظاہر یہ ہے کہ انہوں نے یہ بات توقیفاً(یعنی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر) کہی ہو گی، کیونکہ اس مسئلہ میں اجتہاد و قیاس کے ذریعہ رسائی نہیں ہوسکتی۔ (عمدۃ القاری، جلد 20، صفحہ 45، مطبوعہ: بیروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

عن عمر وعلي وعبد اللہ بن عمر رضي اللہ عنهم أنهم قالوا: لا يكون المهر أقل من عشرة دراهم، والظاهر أنهم قالوا ذلک توقیفا لأنه باب لا يوصل إليه بالاجتهاد والقياس

حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا: مہر دس درہم سے کم نہیں ہوگا اور ظاہر یہ کہ انہوں نے یہ بات توقیفاً کہی ہوگی، کیونکہ یہ ایسا مسئلہ ہے جس میں اجتہاد و قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ (بدائع الصنائع، جلد2، صفحہ 276، مطبوعہ: بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13824

تاریخ اجراء:  26 ذوالحجۃ الحرام 1446 ھ/23 جون 2025 ء