
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
بخاری شریف کی حدیث پاک ہے کہ نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ــ"سباب المسلم فسوق، وقتاله كفر" ترجمہ: مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے قتال کرنا کفر ہے۔ مذکورہ حدیث مبارکہ کی شرح بیان فرمادیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سوال میں بیان کردہ حدیث مبارکہ سے مراد یہ ہے کہ:
فسق کا مطلب ہے: اللہ تعالی کی نافرمانی۔تومسلمان کو گالی دینا فسق ہے کا مطلب ہے کہ: "مسلمان کوگالی دیناگناہ وحرام ہے۔"
اور کفر کے یہاں مختلف معانی ہوسکتے ہیں: (الف ) نعمت کی ناشکری جوکہ حقیقی کفر کا سبب بن سکتی ہے۔ (ب)کافروں کا سا کام۔(ج)حقیقی کفر، اوریہ تب ہے جبکہ مسلمان کے ساتھ ناحق قتال کوحلال سمجھ کر کرے یا اس کے مسلمان ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ قتال کرے۔ (د) اور یا پھر وعید کی شدت بیان کرنے کے لیے کفر کا اطلاق کیاگیا۔
قتال کامطلب ہے: "لڑائی جھگڑا، مارپیٹ، جنگ، قتل۔"
اب اس حدیث پاک مطلب یہ بنے گا کہ:
"مسلمان کو ناحق گالی دینا گناہ و حرام ہے اور مسلمان سے ناحق قتال ناشکری ہے یا کافروں کا ساکام ہے یا اسےحلال سمجھ کر کرنا، کفرہے یامسلمان سے ناحق قتال کی بہت ہی سخت سزاہے۔"
مرقاۃ المفاتیح میں ہے
”أي: شتمه۔۔۔ لأن شتمه بغير حق حرام۔ قال الأكمل: الفسوق۔۔۔شرعا هو الخروج عن الطاعة (وقتاله) أي: محاربته لأجل الإسلام (كفر) . كذا قاله شارح، لكن بُعده لا يخفى؛ لأن هذا من معلوم الدين بالضرورة فلا يحتاج إلى بيانه، بل المعنى: مجادلته ومحاربته بالباطل كفر بمعنى: كفران النعمة والإحسان في أخوة الإسلام، وأنه ربما يئول إلى الكفر، أو أنه فعل الكفرة، أو أراد به التغليظ والتهديد والتشديد في الوعيد، كما في قوله صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم: «من ترك صلاة متعمدا فقد كفر» نعم قتاله مع استحلال قتله كفر صريح“
ترجمہ:(سباب سے مراد)گالی دینا ہے، کیونکہ مسلمان کو ناحق گالی دینا حرام ہے۔ اور اکمل نے کہا کہ فسوق کا شرعی معنی ہے اللہ پاک کی اطاعت سے نکلنا۔ اور قتال یعنی مسلمان سے اسلام کی وجہ سے لڑنا کفر ہے۔ اسی طرح شارح نے کہا لیکن اس کا بعید ہونا مخفی نہیں کیونکہ یہ ضروریات دین سے معلوم ہے اور اس کو بیان کرنے کی کوئی حاجت نہیں بلکہ معنی یہ ہے کہ مسلمان سےنا حق لڑنا جھگڑنا کفر ہے، ان معنی میں کہ یہ نعمت اور اسلام میں بھائی چارے کی نیکی کا انکار ہے یا پھر یہ کہ یہ کفر کی طرف لے جاتا ہے یا یہ کفار کا کام ہے یا اس سے جرم کی بڑائی، اس سے ڈرانا اور وعید میں شدت مراد ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہ وصحبہ وسلم کے فرمان میں ہے کہ "جس نے جان بوجھ کر نماز ترک کی تو تحقیق اس نے کفر کیا"۔ اور ہاں مسلمان کے ناحق قتل کو حلال جان کر اس سے قتال کرنا تو بلا شبہ صریح کفر ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الآداب، باب حفظ اللسان والغیبۃ والشتم، جلد09، صفحہ54، مطبوعہ:کوئٹہ)
مراٰۃ المناجیح میں ہے ”کفر یا بمعنی کفران نعمت یعنی ناشکری ہے، ایمان کا مقابل یعنی بلاقصور مسلمان کو برا کہنا اور بلا قصور اس سے لڑنا بھڑنا ناشکری ہے یا کفا ر کا سا کام ہے یا اسے مسلمان ہونے کی وجہ سے مارنا پیٹنا یا ناجائز جنگ کو حلال سمجھ کر کرنا کفر و بے ایمانی ہے۔“ (مراۃ المناجیح، جلد06، صفحہ448، نعیمی کتب خانہ، گجرات)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد فراز عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4218
تاریخ اجراء: 17ربیع الاول1447 ھ/11ستمبر 2520 ء