
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے: ”جو اپنے نسب کاعلم ہونے کے باوجود کسی دوسرے کی طرف خو د کو منسوب کرے اس پر جنت حرا م ہے‘‘ اس کا مطلب کیا ہے؟حالانکہ جنت تو کفار پر حرام ہے۔ سائل: محمد سالک عطاری (نارووال)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جان بوجھ کراپنا نسب بدلنا ناجائزو حرا م اور سخت گناہ ہے۔ جس کی احا دیث مبارکہ میں شدید مذ مت و وعیدات بیان فرمائی گئی ہیں۔ اور سوال میں مذکور حد یث پاک بھی انہیں وعیدات میں سے ہے۔
اور جہاں تک سوال میں مذکور حدیث پاک کا تعلق ہے، تو علماء نے اس کے کئی محمل بیان فرمائے ہیں: (1) یہ وعید نسب بدلنے کوحلا ل سمجھنے والے کے لیے ہے، کیونکہ نسب بدلنا حر ا م ہے اور حرا م کام کو حلا ل سمجھنا کفر ہے ا ور کافر پر جنت حرام ہے۔ (2) جو افراد ابتداءً جنت میں د اخل ہوں گے ا ن کے ساتھ اس کا داخلہ حرا م ہے۔ (3) نسب بدلنے کی سزا ملنے سے پہلے اس پر جنت حرام ہے، گناہ کی سزا پانے کے بعد مسلمان ہونے کی صورت میں جنت کا د اخلہ نصیب ہوجائے گا۔ (4) نسب بدلنے کے حکم میں شدت و سختی بیان کرنا مقصود ہے۔
بخاری و مسلم شریف کی حدیث پاک ہے:
”من ادعى إلى غير أبيه، وهو يعلم أنه غير أبيه، فالجنة عليه حرام‘‘
ترجمہ: جو اپنے باپ کا علم ہونے کے باوجود خود کو کسی دوسرے کی طرف منسوب کرے اس پر جنت حرام ہے۔)صحیح بخاری، کتاب الفرائض، باب من ادعی الی غیر ابیہ، جلد6، صفحہ 2485، مطبوعہ دمشق(
غیر کی طرف نسب منسوب کرنا حرا م ہے۔ چنانچہ مبسوط سرخسی میں ہے
”لا ينسب الولد إلى غير أبيه فإن ذلك حرام“
یعنی: بچےکو اس کے باپ کے علاوہ کی طرف منسوب نہ کیا جائے، کیونکہ یہ حرا م ہے۔ )المبسوط، باب اقرار المریض بالولد، جلد17، صفحہ 757، مطبوعہ بیروت(
حدیث پاک کی توجیہات کے بالتر تیب جزیات:
(1) یہ وعید نسب بدلنے کو حلا ل سمجھنے والے کے لیے ہے، عمدۃ القاری اور المفاتیح شرح المصابیح میں ہے
واللفظ للآخر: ”هذا يحتمل أن يكون جزاء من اعتقد أن الانتساب إلى غير أبيه حلال، فمن اعتقد الحرام حلالا كفر، وحرمت عليه الجنة‘‘
یعنی: اس حد یث پاک کا محمل یہ ہے کہ یہ اس شخص کی جزا ء ہے، جو اپنے باپ کے علا وہ کسی دوسرے کی طرف نسب منسوب کرنےکو حلال سمجھے اور حرام کو حلال اعتقاد کرنے والا کافر ہے اور کافر پر جنت حرام ہے۔ (المفاتیح، کتاب النکاح، باب اللعان، جلد4، صفحہ 771، مطبوعہ کویت)
(2) ایسے شخص پر ابتداءً جنت حرام ہے، چنانچہ کوثر الجاری شرح صحیح بخاری اور حاشیہ سندی علی ابن ماجہ میں ہے،
واللفظ للآخر : ”فالجنة عليه حرام أي: لا يستحق أن يدخل فيها ابتداء‘‘
ترجمہ: ایسا شخص ابتدا ء جنت میں داخل ہونے کا مستحق نہیں۔ )حاشیہ سندی علی ابن ماجہ، باب من ادعی الی غیر ابیہ، جلد2، صفحہ 717، مطبوعہ بیروت(
(3,4) نسب بدلنے کی سزا ملنے سے پہلے جنت حرا م، یہ فرمان بطور زجر ہے، چنانچہ مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
”أو قبل أن يعذب بقدر ذنبه أو محمول على الزجر عنه‘‘
ترجمہ: اس گناہ کی مقدار عذاب ملنے سے پہلے (اس پر جنت حرام ہے) یا پھر (نسب بدلنے) سے زجر پر یہ حدیث پاک محمول ہے۔ (مرقاہ الفاتیح، باب اللعان، جلد5، صفحہ2170، مطبوعہ بیروت)
حکیم الامت مفتی محمد احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: ”وہ اولًا یا ابرار کے ساتھ جنت میں نہ جاسکے گایا جو شخص یہ کام حلال جان کر کرے، وہ جنت سے بالکل محروم ہے۔‘‘ (مرآۃ المناجیح، جلد5، صفحہ 153، مطبوعہ حسن پبلیشرز، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب : مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر : GUJ-0017
تاریخ اجراء : 16صفرالمظفر1447ھ/ 11اگست 2025ء