کیا سورۂِ یٰس قرآن کا دل ہے؟

سورہ یٰس قرآن پاک کا دل کیوں ہے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ "سورہ یٰس قرآن کا دل ہے" کیا یہ حدیث میں فرمایا گیا ہےاور اس کی وجہ کیا ہے؟

سائل:  حافظ عبد الصمد (اٹک)

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

جی ہاں! حدیث پاک میں سورۂ یٰس شریف کو قرآن پاک کا دل قرار دیا گیاہے، جس کی شارحینِ حدیث نے درج ذیل مناسبتیں بیان کی ہیں:

(1) کسی چیز کا دل اس کا خلاصہ ہوتا ہے اور سورۂ یٰس بھی الفاظ وحجم کے لحاظ سے مختصر ہونے کے باوجود مقاصدِ قرآن کا ایک مکمل وبہترین خلاصہ ہے، جس میں ایسی روشن آیات، مضبوط دلائل، فصیح و بلیغ شواہد، پوشیدہ علوم، دقیق معانی، دلکش وعدے، سخت وعیدیں اور واضح اشارات موجود ہیں کہ اسکی بغور تلاوت کرنے سے صاحبِ علم وایمان خوب سیراب و سرشار ہوجائے۔

(2) دل پورے جسم کا سردار ہوتا ہے اسی طرح سورۂ یٰس بھی تمام سورتوں کی سردار ہے کہ اس میں ہر چیز کا بیان ہے۔

(3) سورۂ یٰس میں قیامت وحشر کا بیان ہے جو کہ ایک غیبی معاملہ ہے، جس کی فکر وتیاری دائمی سعادت کا باعث، جبکہ اس سے غفلت ولاپرواہی دائمی بدبختی کاباعث ہوگی۔ اسی طرح دل حواسِ انسانی سے غائب و پوشیدہ اور پورے بدن کی اصلاح و فساد کا سبب ہوتا ہے، تو یوں قیامت وحشر کو دل سے یک گونہ مشابہت حاصل ہے، اسی مناسبت سے سورۂ یٰس کو قرآن کا دل قرار دیا گیا۔

(4) اس کی تلاوت مردہ دلوں کو حیات بخشتی اور انہیں غفلت کے اندھیرے سے نکال کر اطاعتِ خداوندی و عبادتِ الہی کی طرف پھیر دیتی ہے۔

(5) اس سورت میں تین بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور حشر کا بیان موجود ہے، جن کا تعلق تصدیق بالقلب سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے اس سورۂ مبارکہ کو قریب المرگ شخص کے پاس پڑھنے کا حکم دیا تاکہ موت کی سختی کے سبب اس کا گھبرایا ہوا کمزور دل پرسکون و مضبوط ہوجائے اور اس سورۂ مبارکہ میں بیان کردہ عقائد  ثلاثہ کی تصدیق کرسکے۔

جزئیات:

حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”إن لكل شيء قلبا، و قلب القرآن يس، و من قرأ يس كتب اللہ له بقراءتها قراءة القرآن عشر مرات

ترجمہ: ہر چیز کا دل ہوتا ہے اور قرآن کا دل سورۂ یٰس ہے، جو سورۂ یٰس پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کی قراءت کے سبب دس بار قرآن پڑھنے کا ثواب لکھ دیتا ہے۔ (جامع الترمذی، ‌‌باب ما جاء في فضل يس، ج 5، ص 163، مصطفى البابی، مصر)

ایک اور حدیثِ پاک میں ارشاد فرمایا گیا:

و يس قلب القرآن، لا يقرؤها رجل يريد اللہ و الدار الآخرة إلا غفر له، اقرءوها على موتاكم

ترجمہ: یٰس قرآن کا دل ہے، جو شخص اسے اللہ عزوجل اور آخرت کی نیت سے پڑھے گا اسے بخش دیا جائے گا، (لہذا) اپنے مُردوں کے پاس اس کی تلاوت کرو۔ (السنن الكبرى للنسائي، ج  9، ص 394، حدیث 10847، مؤسسۃ الرسالہ، بیروت)

مذکورہ بالا احادیث میں سورۂ یٰس کو قرآن کا دل کیوں کہا گیا؟ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے شیخِ محقق علامہ عبد الحق محدثِ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اشعۃ اللمعات اور لمعات التنقیح میں فرماتے ہیں:

و اللفظ للمعات قالوا في توجيهه: إن قلب الشيء زبدته، و قد اشتملت هذه السورة الشريفة على زبدة مقاصد القرآن على وجه أتم وأكمل مع قصر نظمها و صغر حجمها

ترجمہ: علما ءنے اس کی توجیہ یہ بیان فرمائی ہے کہ کسی چیز کا دل اس کا خلاصہ ہوتا ہے، اور یہ سور ت شریف الفاظ وحجم کے لحاظ سے مختصر ہونے کے باوجود انتہائی کمال انداز میں مقاصدِ قرآن کے خلاصے پر مشتمل ہے۔ (لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح، ج 4، ص 563، دار النوادر، دمشق)

اِسی توجیہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے علامہ شہاب الدین تُورِبِشتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں:

(قلب  القرآن يس) أي: لبه وذلك لاحتواء تلك السورة مع قصر نظمها و صغر حجمها على الآيات الساطعة و البراهين القاطعة و العلوم المكنونة و المعاني الدقيقة و المواعيد الرغيبة و الزواجر البالغة و الشواهد البليغة و الإشارات الباهرة و غير ذلك مما لو تدبره المؤمن العليم لصدر عنه بالري

 ترجمہ: (قرآن کا دل یٰس ہے) یعنی قرآن کا خلاصہ ہے، کیونکہ یہ سورت الفاظ وحجم کے اعتبار سے مختصر ہونے کے باوجود ایسی روشن نشانیوں، قطعی دلائل، پوشیدہ علوم،  دقیق معانی، دلکش وعدوں، سخت وعیدوں، فصیح وبلیغ شواہد اور واضح اشارات وغیرہ ایسےامور پر مشتمل ہے کہ جن میں صاحب علم وایمان غوروفکرکرے تو سیراب وسرشار ہوکر اس سے واپس لوٹے۔ (الميسر في شرح مصابيح السنة للتوربشتي، ج 2، ص 504، مكتبة نزار مصطفى الباز)

مفسرِ قرآن شیخ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ مزید دو وجوہات بیان فرماتے ہیں:

و قال ابو عبد اللہ القلب امير على الجسد، وكذلك يس امير على سائر السور موجود فيه كل شىء. و يجوز ان يقال فى وجه شبهه بالقلب انه لما كان القلب غائبا عن الاحساس و كان محلا للمعانى الجليلة وموطنا للادراكات الخفية و الجلية و سببا لصلاح البدن و فساده، شبه الحشر به فانه من عالم الغيب و فيه يكون انكشاف الأمور و الوقوف على حقائق المقدور و بملاحظته و إصلاح أسبابه تكون السعادة الابدية و بالاعراض عنه وإفساد أسبابه يبتلى بالشقاوة السرمدية

ترجمہ: حضرت ابو عبد اللہ رحمہ اللہ نے فرمایا "دل جسم کا امیر (حاکم) ہوتا ہے، اسی طرح سورہ یٰس دیگر سورتوں پر امیر ہے، کہ اس میں ہر چیز موجود ہے۔" اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سورہ یٰس کو دل سے تشبیہ اس وجہ سے دی گئی کہ چونکہ دل حواس سے پوشیدہ ہوتا ہے، اور بلندو بالا معانی کا مرکز، خفیہ و ظاہر ادراکات کا مقام، اور بدن کی اصلاح و فساد کا سبب ہوتا ہے، اس لیے حشر کو اس کے مشابہ قرار دیا گیا ہے، کیونکہ وہ بھی عالَمِ غیب سے ہے، اور اسی میں امور کا انکشاف اور حقائق  قدرت پر اطلاع ہوگی، اور اسے پیش نظر رکھ کر اس کے اسباب کی اصلاح سے ابدی سعادت حاصل ہوگی، جبکہ اس سے روگردانی کرتے ہوئے اس کے اسباب کو خراب کرنے کی صورت میں دائمی بدبختی کا سامنا ہوگا۔ (تفسیرروح البيان، ج 7، ص 442،دار الفکر، بیروت)

شارحِ مشکوٰۃ حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ سورۂ یٰس کو قرآن کا دل کہنے کی دو اور وجوہات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

لكون قراءتها تحيي قلوب الأحياء والأموات و تقلبها من الغفلة إلى الطاعات و العبادات،... و قال النسفي: لأنها ليس فيها إلا تقرير الأصول الثلاثة الوحدانية و الرسالة و الحشر و هذه تتعلق بالقلب لا غير، وما يتعلق باللسان و الأركان مذكور في غيرها، فلما كان فيها أعمال القلب لا غير سميت قلبا، و لهذا أمر عليه الصلاة والسلام بقراءتها عند المحتضر لأنه في ذلك الوقت يكون الجنان ضعيف القوة والأعضاء ساقطة، لكن القلب قد أقبل على الله ورجع عما سواه فيقرأ عنده ما يزداد به قوة في قلبه ويشد به تصديقه بالأصول الثلاثة

 ترجمہ: (یٰس کوقرآن کا دل کہنے کی وجہ یہ ہے) کہ اس کی قراءت زندہ و مردہ لوگوں کے دل زندہ کر دیتی ہے اور غفلت سے طاعات اور عبادات کی طرف پھیر دیتی ہے۔۔۔ اور امام نسفی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس سورت میں تین بنیادی عقائد یعنی توحید،رسالت اور حشر کا ثبوت ہےاور ان کا تعلق صرف دل کے ساتھ ہے، اس کے علاوہ سے نہیں، جبکہ جن کا تعلق زبان اور افعال سے ہوتا ہے وہ اس کے علاوہ سورتوں میں مذکور ہیں، تو جب اس سورت میں صرف قلبی اعمال ہی مذکور ہیں تو اسے دل کا نام دے دیا گیا، اسی لئے نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ و الہ و سلم نے اس سورت کو قریب المرگ شخص کے پاس پڑھنے کا حکم دیا،کیونکہ اس وقت دل کمزور ہوجاتا ہے اور اعضاء بےکار ہوجاتے ہیں، لیکن دل سب کچھ چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے، لہذا اس کے پاس وہ چیز پڑھنی چاہیے جس سے اس کے دل کی قوت میں اضافہ ہو اور (ماقبل بیان کردہ) عقائدِ ثلاثہ کی تصدیق میں پختگی حاصل ہو۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، ج 4، ص  1478،دار الفكر، بيروت)

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”سورہ یس پورے قرآن شریف کا گویا خلاصہ ہے کہ اس میں قیامت کے حالات کا مکمل بیان ہے، اس کی تلاوت سے دل زندہ، ایمان تازہ، روح شاداں و فرحاں ہوتے ہیں۔ قریب موت اس کی تلاوت سے جان کنی آسان ہوتی ہے۔ امام غزالی فرماتے ہیں کہ ایمان کا دل ہے قیامت کے حالات کو ماننا، اور حالات قیامت جس تفصیل سے سورۂ یسین میں مذکور ہیں دوسری سورت میں مذکور نہیں اس لیے اسے قرآن کا دل فرمایا۔“ (مرآۃ المناجیح، ج 3، ص 272، حدیث 2147، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: PIN-7632

تاریخ اجراء: 25 صفر المظفر 1447ھ / 20 اگست 2025ء