قرآن مجید کے اعراب پر ایمان لانا ضروری ہے؟

قرآن مجید کے اعراب پر ایمان لانے کا حکم

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ قرآنِ مجید میں پہلے زبر، زیر، پیش نہیں لگے ہوئے تھے تو کیا ان پر بھی ایمان لانا ضروری ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

قرآنِ مجید پر پہلے اعراب نہیں لگے ہوئے تھے،یہ تابعین کے زمانے سے رائج ہوئے، لیکن اعراب وہی لگائے گئے جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ تھے، یعنی جو لفظ جس اعراب کے ساتھ نازل ہوا تھا اس پر وہی اعراب لگایا گیا، لہذا قرآنِ مجید کے اعراب پر ایمان لانا بھی ضروری ہے، اور اس کا انکار کرنا کفرہےکہ اس میں اس آیت قرآنی کا انکار ہے، جس میں فرمایا گیا کہ ہم قرآن پاک کی حفاظت کرنے والے ہیں، نیز اس طرح اصل قرآن کا انکار اور غیر قرآن کو قرآن ماننا پایا جائے گا۔ قرآن پاک میں ارشادخداوندی ہے:

(إنا نحن نزلنا الذكر و إنا له لحافظون)

ترجمہ: بے شک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بےشک ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔ (سورۃ الحجر، پ 14، آیت 09)

تفیسر جلالین میں اس آیت مبارکہ کی تفسیریوں بیان فرمائی:

({إنا نحن}۔۔۔{نزلنا الذكر} القرآن {وإنا له لحافظون} من التبديل و التحريف و الزيادة و النقص)

ترجمہ: بے شک ہم نے یہ قرآن اتاراہے اوربے شک ہم خود اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ہر قسم کی تبدیلی، تحریف، اور کمی بیشی سے۔ (تفسیرجلالین، ص 338،دار الحدیث، القاھرۃ)

فتاوی عالمگیری میں ہے

اذا انکر الرجل آیۃ من القرآن۔۔۔ کفر کذا فی التاتارخانیۃ

 ترجمہ: جب کوئی شخص قرآن پاک کی کسی ایک آیت کا بھی انکار کرے تووہ کافرہے، ایسا ہی تاتارخانیہ میں ہے۔ (فتاوی عالمگیری، جلد 2، صفحہ 266، مطبوعہ: بیروت)

فتاوی رضویہ میں ہے ”جو شخص قرآن مجید میں زیادت یا نقص یا تبدیل کسی طرح کے تصرفِ بشری کا دخل مانے یا اُسے محتمل جانے بالاجماع کافر مرتد ہے کہ صراحۃً قرآن عظیم کی تکذیب کر رہا ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 14، صفحہ 259، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

فتاوی رضویہ میں ہے

سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کما انزل الیہ بصحابہ کرام رسانید و صحابہ بتابعین و تابعین بہ تبع و ہمچناں قرناً بقرناً وطبقۃ بطبقۃ ہر ہر حرف و حرکت و صفت و ہیئت بر اقصی غایات تواتر کہ ما فوق آں متصور نیست بما رسید و الحمد للہ العلی المجید وذلک قولہ تعالی:انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحفظون

ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے صحابہ تک قرآن پاک کو اسی طرح پہنچا دیا جس طرح و ہ نازل ہوا تھا، صحابہ نے تابعین تک، تابعین نے تبع تابعین تک، اور اسی طرح ہر دور اور ہر طبقہ میں اس کا ہر حرف، ہر حرکت، ہر صفت اور ہیئت تواتر کے اعلی درجہ کے ساتھ ہم تک منقول ہے کہ اس سے بڑھ کر تواتر کا تصور بھی نہیں ہو سکتا، حمد ہے اللہ کے لئے جو بلند بزرگی والا ہے، اسی سے متعلق اللہ تعالٰی کا ارشاد گرامی ہے: بے شک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم خودہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (فتاوی رضویہ، جلد 6، صفحہ 287، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

فتاوی رضویہ میں ہے "حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ و سلم پر قرآن عظیم کی عبارت کریمہ نازل ہوئی عبارت میں اعراب نہیں لگائے جاتے حضور کے حکم سے صحابہ کرام مثل امیر المومنین عثمٰن غنی و حضرت زید بن ثابت و امیر معاویہ و غیرہم رضی اللہ تعالی عنہم اسے لکھتے ان کی تحریر میں بھی اعراب نہ تھے یہ تابعین کے زمانے سے رائج ہوئے۔" (فتاوی رضویہ، جلد 26، صفحہ 492، 493، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

فتاویٰ شارح بخاری میں ہے "یہ صحیح ہے کہ قرآنِ مجید پر اعراب حجاج بن یوسف کے زمانے میں لگا ہے، اعراب سے مراد زبر، زیر، پیش کے نشانات ہیں، یہ اعراب منزل من اللہ کے مطابق ہے، یعنی جہاں قرآن میں زبر نازل ہوا تھا زبر کی علامت لگائی، اور جہاں زیر نازل ہوا تھا وہاں زیر کی علامت لگائی گئی ہے۔ اسی طرح بقیہ علامات بھی، یعنی جو اعراب منزل من اللہ تھا اس کا وہاں نشان لگا دیا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بتواتر منقول تھا اس کے مطابق، ایسا نہیں ہوا کہ بتواتر منقول اعراب کے خلاف کوئی اعراب لگایا گیا ہو۔۔۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ قرآن کا موجودہ اعراب منزل من اللہ کے خلاف ہے، اگرچہ اس کا یہ قول کسی ایک آیت کے بارے میں ہی ہو وہ کافر و مرتد ہے، اس لئے کہ وہ قرآن منزل من اللہ کا منکر ہے، اور جو قرآن نہیں، اسے قرآن مانتا ہے۔" (فتاویٰ شارح بخاری، جلد 1، صفحہ 626، 627، برکات المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4354

تاریخ اجراء: 26 ربیع الآخر 1447ھ / 20 اکتوبر 2025ء