
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا قرآن پاک کےالفاظ مخلوق ہیں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
قرآنِ کریم اللہ پاک کا کلام اور اس کی صفت ہے اور اس کی دیگر صفات کی طرح اس کا کلام بھی مخلوق و حادِث نہیں بلکہ قدیم ہے، اسی طرح الفاظِ قرآنی جو پڑھے یا لکھے گئے وہ خود قدیم و غیر مخلوق ہیں، ہاں ہمارا پڑھنا لکھنا حادث ہے۔ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو قرآنِ کریم کو مخلوق کہے اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا۔
پارہ 15 سورۂ بنی اسرائیل میں اللہ رب العٰلمین فرماتا ہے:
وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ٘- فَاَبٰۤى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا(89)
ترجمۂ کنز الایمان: اور بےشک ہم نے لوگوں کے لیے اس قرآن میں ہر قسم کی مَثَل(مثالیں) طرح طرح بیان فرمائیں تو اکثر آدمیوں نے نہ مانا مگر ناشکر کرنا۔ (سورۂ بنی اسرائیل، آیت 89)
اس کی تفسیر کرتے ہوئے شیخ الحدیث و التفسیر مفتی محمد قاسم صاحب مدظلہ العالی تحریر فرماتے ہیں: ”قرآنِ مجید مخلوق نہیں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات ازلی اور غیر مخلوق ہیں۔ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: جو قرآن کریم کو مخلوق کہے یااس کے بارے میں تَوَقُّف کرے یا اس کے بارے میں شک کرے تواس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا۔ نیز اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فتاویٰ رضویہ کی 15 ویں جلد میں موجود اپنے رسالے ’’سُبْحٰنَ السُّبُّوْحْ عَنْ عَیْبِ کِذْبٍ مَقْبُوْحْ‘‘ (جھوٹ جیسے بد ترین عیب سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پاک ہونے کا بیان) میں قرآن عظیم کے غیر مخلوق ہونے پر ائمۂ اسلام کے 32 ارشادات ذکر کئے ہیں اور ان میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ 9 صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم فرماتے تھے کہ جو قرآن کو مخلوق بتائے وہ کافر ہے۔“(تفسیر صراط الجنان، جلد 5، صفحہ 513، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
بہار شریعت میں ہے: ”مثل دیگر صفات کے کلام بھی قدیم ہے، حادث و مخلوق نہیں، جو قرآنِ عظیم کو مخلوق مانے ہمارے امامِ اعظم و دیگر ائمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اُسے کافر کہا، بلکہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے اُس کی تکفیر ثابت ہے۔ اُس کا کلام آواز سے پاک ہے اور یہ قر آ نِ عظیم جس کو ہم اپنی زبان سے تلاوت کرتے، مَصاحِف میں لکھتے ہیں، اُسی کا کلام قدیم بلا صوت ہے اور یہ ہمارا پڑھنا لکھنا اور یہ آواز حادث، یعنی ہمارا پڑھنا حادث ہے اور جو ہم نے پڑھا قدیم اور ہمارا لکھنا حادث اور جو لکھا قدیم، ہمارا سنناحادث ہے اور جو ہم نے سنا قدیم، ہمارا حفظ کرنا حادث ہے اور جو ہم نے حفظ کیا قدیم، یعنی متجلّی قدیم ہے اور تجلّی حادث۔ (متجلّی یعنی کلامِ الٰہی، قدیم ہے، اور تجلّی یعنی ہمارا پڑھنا، سننا، لکھنا، یاد کرنا یہ سب حادث ہے۔)“ (بہار شریعت، جلد 1، صفحہ 8 تا 10،مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد کفیل رضا عطاری مدنی
فتوی نمبر: Web-2234
تاریخ اجراء: 15شوال المکرم1446ھ/14اپریل2025ء