
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ قرآن پاک پر اعراب شروع سے لگے ہیں یا بعد میں لگائے گئے؟ نیز قرآن پاک پر اعراب کس نے لگوائے تھے ؟ اور ان کو لگانے کی کیا حکمت تھی؟ سائل: محمد زاہد عطاری (غلام محمد آباد )
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سوال میں تین باتیں پوچھی گئی ہیں۔تینوں کا جواب بالترتیب دیا جائے گا۔
(1)کیاقرآن پر اعراب شروع سے موجود تھے؟
عہدِ رسالت اور صحابہ کرام کے زمانے میں قرآن مجید جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا، انہیں الفاظ کے ساتھ لکھا جاتا تھا، لیکن اس میں اعراب نہیں لگائے جاتے تھے۔یہ اعراب تابعین کے دور میں قرآن کے نسخوں پر لگائے گئے۔ فتاوی رضویہ میں سوال ہوا کہ کلام مجید بااعراب خداوند کریم کی طرف سے رسول مقبول صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم پرنازل ہوا کرتا تھا یا اعراب بعد رسول صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم کے درست کیاگیا؟ اس کے جواب میں امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پرقرآن عظیم کی عبارت کریمہ نازل ہوئی، عبارت میں اعراب نہیں لگائے جاتے؛ حضورکے حکم سے صحابہ کرام مثل امیرالمومنین عثمان غنی و حضرت زیدبن ثابت وامیر معاویہ و غیرہم رضی ﷲ تعالی عنہم اسے لکھتے، ان کی تحریر میں بھی اعراب نہ تھے، یہ تابعین کے زمانے سے رائج ہوئے۔(فتاوی رضویہ، جلد 26، صفحہ 492، رضا فاؤنڈیشن لاھور)
(2)قرآن پاک پر اعراب کس نے لگوائے؟
ابتدائی طور پر عبدالملک بن مروان نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شاگرد، مشہور تابعی بزرگ حضرت ابوالاسود دُئلی رحمۃ اللہ علیہ سے قرآن پر اعراب لگانے کے متعلق درخواست پیش کی، پھر عبد الملک بن مروان نے مستقل طور پر یہ کام حجاج بن یوسف کے سپرد کیا کہ وہ اس کو مکمل کروائے، تو حجاج بن یوسف چونکہ اس کام کاذمہ دار تھا، تو اس کے درخواست کرنے پر حضرت ابوالاسود دُئلی رحمۃ اللہ علیہ نے قرآنِ مجید پر اعراب لگائے۔
چنانچہ امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہواکہ اعراب قرآنی کی ایجاد کس سن میں ہوئی اور اس کابانی کون ہے؟ تواس کے جواب میں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: زمن عبدالملک بن مروان میں اس کی درخواست سے مولیٰ علی کرم اﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم کے شاگردرشید حضرت ابوالاسود دُئلی نے یہ کارِنیک کیا۔ (فتاوی رضویہ، جلد 26، صفحہ 399، رضا فاؤنڈیشن لاھو ر)
امام ابو عبد اللہ محمد بن احمد انصاری قرطبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 671ھ/1273ء)لکھتے ہیں:
’’أما شكل المصحف ونقطه فروي أن عبد الملك بن مروان أمر به وعمله، فتجرد لذلك الحجاج بواسط وجد فيه“
ترجمہ: بہرحال مصحف پر اعراب اور نقطے لگانے کے متعلق روایت کیا گیا ہے کہ عبدالملک بن مروان نے اس کا حکم دیا اور اسے کروایا۔پس حجاج نے ’’واسط“ میں اس کام کے لیے اپنے آپ کو مشغول کرلیا، پھر اس کی کوشش میں لگ گیا۔ (الجامع لاحکام القرآن(تفسیر قرطبی )، جلد 1، صفحہ 63، مطبوعہ دار الکتب المصریہ، القاھرۃ )
تفسیر نعیمی میں ہے: ’’اعراب لگانے والے ابو الاسود دؤلی تابعی ہیں، جنہوں نے حجاج بن یوسف کے حکم سے یہ کام کیا۔“ (تفسیر نعیمی، جلد1، صفحہ 26، مطبوعہ نعیمی کتب خانہ گجرات)
(3)اعراب لگوانے کی ضرورت اور حکمت!
جب اسلام پھیلنا شروع ہوا اور عجمی لوگ مسلمان ہوئے تو ان کے لیے بغیر اعراب کے صحیح تلفظ کے ساتھ قرآن پڑھنا مشکل تھا۔ اسی ضرورت اور حکمت کے پیشِ نظر قرآن پر اعراب لگائے گئے تاکہ اس کی اصل قراءت ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائے۔
قرآن پاک پر ا عراب لگانے کی کتنی ضرورت تھی، اس کا اندازہ اِس واقعہ سے لگا یا جاسکتا ہے، چنانچہ امام زرقانی رحمۃ اللہ علیہ اس واقعہ کو اپنی کتاب "مَنَاهِلُ الْعِرْفَانِ فِي عُلُومِ الْقُرْآنِ" میں یوں نقل فرماتے ہیں :
”إن أبا الأسود الدؤلي سمع قارئا يقرأ قوله تعالى: ﴿اَنَّ اللّٰهَ بَرِیْٓءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ وَرَسُوْلُہٗ﴾. فقرأها بجر اللام من كلمة رسوله. فأفزع هذا اللحن الشنيع أبا الأسود وقال: عز وجه اللہ أن يبرأ من رسوله. ثم ذهب إلى زياد والي البصرة وقال له وقد أجبتك إلى ما سألت. وكان زياد قد سأله أن يجعل للناس علامات يعرفون بها كتاب اللہ فتباطأ في الجواب حتى راعه هذا الحادث وھنا جد جدہ“ ترجمہ: حضرت ابو الاسود الدؤلی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک قاری کو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پڑھتے ہوئے سنا: ﴿اَنَّ اللّٰهَ بَرِیْٓءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ وَرَسُوْلُہٗ﴾
اس قاری نے یہ کلمہ "رَسُوْلُہٗ"لام پرزیر کے ساتھ پڑھ دیا(جبکہ حقیقت میں لام پر پیش تھا)۔ اس سنگین غلطی نے ابو الاسود رحمۃ اللہ علیہ کو خوفزدہ کر دیا اور انہوں نے کہا: "اللہ کی ذات اس سے پاک اور بلند ہے کہ وہ اپنے رسول سے بھی براءت کا اظہار کرے۔" پھر وہ بصرہ کے گورنر زیاد کے پاس گئے اور کہا: "میں نے آپ کی درخواست قبول کر لی ہے۔ "زیاد نے ان سے (پہلے) یہ درخواست کی تھی کہ وہ لوگوں کے لیے کچھ ایسی علامات (نشانیاں) وضع کریں جن سے وہ اللہ کی کتاب کو صحیح طور پر پہچان سکیں، لیکن ابو الاسود نے جواب دینے میں تاخیر کی تھی، یہاں تک کہ اس واقعے نے انہیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔اور تب انہوں نے اس کام کے لیے کمر کس لی۔ (مناھل العرفان فی علوم القرآن، جلد 1، صفحہ 332، مطبوعہ مطبوعہ دا ر الکتب العرب)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD -9459
تاریخ اجراء: 26 صفر المظفر 1447ھ 21اگست 2025ء