
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا قرآنِ پاک کی تلاوت کرنا افضل ہے یا کسی شخص سے تلاوت سننے کی فضیلت زیادہ ہے ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
قرآنِ مجید کی تلاوت کرنا بہت بڑے اجر وثواب کا باعث ہے اور مطلوبِ شرع بھی یہی ہے کہ جس قدر ممکن ہو، قرآنِ مجید کی تلاوت کی جائے۔ احادیثِ مبارکہ میں پیارے آقا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے جا بجا اس کے فضائل و برکات اور اس پر ملنے والی حَسَنَات (نیکیوں ) کا تذکرہ کر کے، خوب تلاوتِ کلامِ پاک کرنے کی ترغیب ارشاد فرمائی ہے، یہاں تک کہ تلاوت کرنے والے شخص کو اللہ پاک کے مقرب فرشتوں کا ساتھی قرار دیتے ہوئے ایسے شخص کے لیے ہر ہر حرف کی تلاوت پر دس دس نیکیوں کا مژدہ (بشارت) بھی سنایا ہے، جبکہ سننے کے متعلق اس انداز سے فضائل قرآن و سنت میں مذکور نہیں۔
مزید یہ کہ تلاوت کرنے والے کو دیکھ کر پڑھنے کی صورت میں دیکھنے اور چھونے کا ثواب، اور اگرکوئی دوسرا شخص ساتھ سننے کے لئے موجود ہو، تو اس کے سننے کا ثواب بھی، سننے والے کے ساتھ ساتھ پڑھنے والے کو بھی حاصل ہو جا تا ہے کیونکہ سننے والے کو نیکی کا حصول تلاوت کرنے والے ہی کی وجہ سے ہوتا ہے، الغرض تلاوتِ قرآن کے ساتھ قرآن پاک کو دیکھنے، چھونے وغیرہ کی صورت میں جس قدر مشغولیت بڑھتی چلی جائے گی، اسی قدر ثواب زیادہ ہوتا چلا جائے گا، تو یوں پڑھنے میں وہ برکات ہیں جو سننے میں عموماً حاصل نہیں ہوتیں ۔
البتہ جس وقت تلاوتِ کلامِ پاک سننے کا فرض متعلق ہو جائے، تو اب تلاوت قرآن پاک کاسننا، وہاں سے اٹھ کر دوسری جگہ پر جاکر خود تلاوت کرنے سے افضل اور زیادہ ثواب کا باعث ہے، کیونکہ تلاوت قرآن پاک کا سننا فرض کے درجہ میں ہے اور خود سے تلاوت قرآن کرنا نفل کے درجہ میں ہے اور فرض پر عمل کرنا نفل و مستحب پر عمل کرنے سے افضل اور زیادہ ثواب کا باعث ہے۔
قرآنِ پاک کی تلاوت کرنے والا شخص اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتوں کا ساتھی ہے، چنانچہ حدیثِ پاک میں ہے:
”عن عائشة، عن النبي صلی اللہ تعالی علیہ وسلم قال: مثل الذي يقرأ القرآن، وهو حافظ له، مع السفرة الكرام، ومثل الذي يقرأ، وهو يتعاهده، وهو عليه شديد، فله أجران“
ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے روایت فرماتی ہیں کہ آقاصلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص قرآنِ پاک کی تلاوت کرتا ہے اور وہ اس کا ماہر بھی ہے، تو یہ شخص کراماً کاتبین کے ساتھ ہو گا اور جو شخص تلاوت کرتا ہے اور اس کی پابندی کرتا ہے، باوجود اس کے کہ تلاوت کرنے میں اسے مشکل درپیش ہوتی ہے، تو اس کے لئے دوگنا اجر ہے۔ (صحیح البخاری، جلد 6، صفحہ 166، مطبوعہ المطبعۃ الکبری مصر)
تلاوتِ قرآنِ پاک کرنے کا اجر بیان فرماتے ہوئے، حضور رحمتِ عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
”من قرأ حرفا من كتاب اللہ فله به حسنة، والحسنة بعشر أمثالها، لا أقول الم حرف، ولكن ألف حرف ولام حرف وميم حرف “
ترجمہ: جس شخص نے کتاب اللہ (قرآنِ مجید ) کا ایک حرف پڑھا، اسےاس کی برکت سے ایک نیکی دی جاتی ہے اور ایک نیکی دس نیکیوں کی مثل ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ”الم“ ایک حرف ہے، بلکہ الف الگ حرف ہے، لام الگ اور میم بھی علیحدہ سے ایک حرف ہے۔ (سنن ترمذی، باب فضائل القرآن، جلد 5، صفحہ 175، مطبوعہ مطبعۃ مصطفی البابی)
نیکی کا ذریعہ بننے والے کو نیکی کرنے والے کے برابر ثواب ملتا ہے، اس لئے تلاوت کرنے والے شخص کو سننے والوں کے ثواب کے برابر اجر ملے گا، کیونکہ یہ اس کے نیکی کرنے کا سبب بن رہا ہے، چنانچہ حدیثِ پاک میں ہے:
”عن أبي مسعود الأنصاري قال: جاء رجل إلى النبي صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فقال: إني أبدع بي فاحملني، فقال: ما عندي.فقال رجل: يا رسول اللہ، أنا أدله على من يحمله، فقال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم: من دلّ على خير فله مثل أجر فاعله“
ترجمہ: حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)! میرا سواری کا جانور ضائع ہو گیا ہے، آپ مجھے سواری مہیا کر دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میرے پاس سواری نہیں ہے۔“ ایک شخص نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم !میں اس کو ایک ایسے شخص کے متعلق بتاتا ہوں جو اسے سواری کا جانور مہیا کر دے گا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس شخص نے کسی نیکی کا پتہ بتایا، اس کے لیے (بھی) نیکی کرنے والے شخص جیسا اجر ہے۔“ (صحیح مسلم، جلد 6، صفحہ 41، مطبوعہ دار الطباعۃ العامرہ، الترکیا )
اس حديثِ پاک کے تحت علامہ علی قاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں :
”(من دل) أي: بالقول أو الفعل أو الاشارة أو الكتابة“
ترجمہ: جس نے رہنمائی کی یعنی اپنے قول، فعل، اشارے یا تحریر کی صورت میں (جس طرح بھی کسی نیکی کا سبب بنے گا، نیکی کرنے والے کی مثل اجر پائے گا )۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، جلد 4، صفحہ 1499، مطبوعہ دار الفکر، بیروت )
قرآنِ پاک کے ساتھ، دیکھنے چھونے وغیرہ کی صورت میں جس قدر مشغولیت زیادہ ہو گی، اسی قدر اجر میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا، چنانچہ حدیثِ پاک میں ہے کہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”اعطوا أعينكم حظها من العبادة قيل: يا رسول اللہ و ما حظها من العبادة قال: النظر في المصحف و التفكر فيه و الاعتبار عند عجائبه“
یعنی اپنی آنکھوں کو ان کی عبادت کا حصہ دو۔عرض کیا گیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آنکھ کی عبادت کا حصہ کیا ہے؟ فرمایا: قرآن پاک کی زیارت کرنا، اس میں غوروفکر کرنا اور اس کےعجائبات پر غورکرنا۔ (شعب الایمان للبیھقی، جلد2، صفحہ348، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت)
حلبی کبیر میں ہے:
”وقراءۃ القرآنِ من المصحف افضل لانہ جمع بین عبادتی القراءۃ والنظر“
ترجمہ: قرآنِ پاک کو مصحف شریف سے دیکھ کر پڑھنا افضل ہے، کیونکہ اس میں دونوں عبادتوں یعنی تلاوت و زیارت کو جمع کرنا پایا جا رہا ہے۔ (حلبی کبیر، صفحہ 495، مطبوعہ در سعادت )
قرآنِ مجید فرقانِ حمید کی تلاوت کی جارہی ہو، تو مخصوص شرائط کی موجودگی میں اس کو سننا فرض ہے، چنانچہ ارشادِ باری تعالی ہے:
﴿وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ﴾
ترجمہ کنز العرفان: اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
اس آیتِ مبارکہ کے تحت تفسیرِ صراط الجنان میں تفسیرِ مدارک کے حوالے سے ہے: اس آیت سے ثابت ہوا کہ جس وقت قرآنِ کریم پڑھا جائے، خواہ نماز میں یا خارجِ نماز اُس وقت سننا اور خاموش رہنا واجب ہے۔ (پارہ 9، سورۃ الاعراف، آیت 204)
جو لوگ تلاوتِ قرآنِ پاک سننے کے لئے حاضر ہوں، ان کے لئے توجہ سے سننا فرض ہے، چنانچہ الدر المختار میں ہے:
”يجب الاستماع للقراءة مطلقا لان العبرۃ لعموم اللفظ“
ترجمہ: قرآنِ مجید کی تلاوت سننا مطلقاً فرض ہے، کیونکہ اعتبار، لفظ کے عموم کا ہوتا ہے۔
اس کے تحت رد المحتار میں ہے:
”أي في الصلاة وخارجها لأن الآية وإن كانت واردة في الصلاة على ما مر فالعبرة لعموم اللفظ لا لخصوص السبب، ثم هذا حيث لا عذر“
ترجمہ: یعنی نماز میں بھی اور نماز کے علاوہ بھی، کیونکہ آیت اگرچہ نماز کے متعلق نازل ہوئی ہے، لیکن اعتبار، الفاظ کے عمومی معنی کا ہوتا ہے، خصوصی سبب کا نہیں۔پھر یہ وجوب اس صورت میں ہے کہ جب کوئی عذر نہ ہو۔( رد المحتار علی الدر المختار، جلد 1، صفحہ 546، مطبوعہ مطبعۃ مصطفی البابی، مصر)
اس مسئلہ کے متعلق اعلی حضرت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃالرحمن ارشادفرماتےہیں: ”اقول: وباللّٰہ التوفیق (میں اللہ کے توفیق دینے سے کہتا ہوں)ظاہریہ ہے، واللہ تعالی اعلم کہ اگر کوئی شخص اپنے لئے تلاوتِ قرآن عظیم بآواز(بلندآوازسےتلاوت)کر رہا ہےاور باقی لوگ اس (تلاوت) کےسننےکوجمع نہ ہوئے، بلکہ اپنےاغراضِ متفرقہ میں(اپنےمختلف کاموں میں مصروف)ہیں، توایک شخص تالی (تلاوت کرنےوالے)کے پاس بیٹھا بغور سن رہا ہے، (تو) ادائے حق(تلاوت سننےکاحق ادا)ہوگیا، باقیوں پرکوئی الزام نہیں اور اگروہ سب اسی غرضِ واحد (تلاوت سننے)کے لئے ایک مجلس میں مجتمع(جمع ہوئے)ہیں، تو سب پر سننےکا لزوم چاہیے، جس طرح نمازمیں جماعت مقتدیان کہ ہر شخص پراستماع وانصات جداگانہ فرض ہے یا جس طرح جلسہ خطبہ کہ ان میں ایک شخص مذکر اور باقیوں کو یہی حیثیت واحدہ تذکیر جامع ہے، تو بالاتفاق ان سب پرسننا فرض ہے، نہ یہ کہ استماعِ بعض(بعض افرادکاسننا)کافی ہو، جب تذکیر میں کلامِ بشیرکاسننا، سب حاضرین پرفرض عین ہوا، توکلامِ الہی کااستماع بدرجہ اولی(فرض ہے)۔ “ (فتاوی رضویہ، جلد23، صفحہ353، رضافاؤنڈیشن، لاہور)
جب قرآنِ پاک کی تلاوت سننے کا فرض متعلق ہو جائے، تو اس کو سننا خود تلاوت کرنے سے افضل ہے، چنانچہ فتاوی شامی، شرح ملا مسکین اور غنیۃ المتملی میں ہے
واللفظ للآخر؛ ”و استماع القرآن افضل من تلاوتہ و کذا من الاشتغال بالتطوع لانہ یقع فرضا و الفرض افضل من النفل“
ترجمہ: اور قرآن سننا اس کی تلاوت کرنے سےافضل ہے اور اسی طرح نفل میں مشغول ہونے سے افضل ہے، کیونکہ قرآن سننے کی صورت میں فرض کی ادائیگی ہوگی اور فرض نفل سے افضل ہے۔(غنیۃ المتملی، جلد 02، صفحہ 342، مطوعہ کوئٹہ)
بہار شریعت میں بیرون نماز قراءت کے مسائل میں ہے : ”قرآن مجید سُننا، تلاوت کرنے اور نفل پڑھنے سے افضل ہے۔“ (بہار شریعت، جلد 01، حصہ 03، صفحہ 552، مکتبۃ المدینہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب : مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر : FSD-9455
تاریخ اجراء : 26 صفر المظفر 1447ھ/21 اگست 2025ء