دارالافتاء اہلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ بہار شریعت میں سنت مؤکدہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا: ”اس کا تارک مستحق ہے کہ معاذ اللہ شفاعت سے محروم ہو جائے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو میری سنت کو ترک کریگا، اسے میری شفاعت نہ ملے گی“ یہی بات اور بھی کئی کتب میں مذکور ہے۔ براہِ کرم شرعی رہنمائی فرمائیں کہ کیا سنتِ مؤکدہ کا تارک ہر طرح کی شفاعت سے محروم رہے گا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اولاً سنتِ مؤکدہ چھوڑنے کا حکم ذہن نشین کر لیجئے کہ بلاعذر اسے ایک آدھ دفعہ چھوڑنا اساءت یعنی برا ہے اور ترک کی عادت بنالینا گناہ ہے، لہذا کسی بھی سنتِ مؤکدہ کو نہیں چھوڑنا چاہئے، بلکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ مؤکدہ و غیر مؤکدہ سب سنتوں پر عمل کیا جائے۔
اور جہاں تک سوال کا تعلق ہے، تو یاد رہے کہ ایک قول کے مطابق مذکورہ وعید بطورِ زجر بیان ہوئی ہے، تاکہ لوگ سنت کی طرف راغب ہوں۔ البتہ بعض اقوال کے مطابق یہ وعید بعض مخصوص شفاعتوں سے متعلق ہے، بالکلیہ ہر طرح کی شفاعت سے محرومی نہیں ہو گی، کیونکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت ِعظمی (جلد حساب شروع ہونے کی شفاعت) تو تمام لوگوں حتی کہ کفار کے لیےبھی ہوگی، چہ جائیکہ سنت چھوڑنے والا اس سے محروم رہے اور بعض مخصوص شفاعتوں سے محرومی کی تفصیل یہ ہے:
(1) سنتِ مؤکدہ ترک کرنے والا سنتوں پر عمل کی وجہ سے ملنے والی شفاعت سے محروم رہے گا۔
(2) بلندی درجات کی شفاعت سے محروم رہے گا، یعنی اس کے درجے بلند نہ کرائے جائیں گے۔
(3) سنت مؤکدہ چھوڑنے والا میدان محشر میں حساب شروع ہونے کے بعد والی ہولناکیوں سے بچنے کی شفاعت سے محروم رہے گا۔
(4) اگر ایسے شخص کو معاذ اللہ جہنم میں جانے کا حکم ہوا تو جہنم سے روکے جانے کی شفاعت سے محرومی ہوگی۔
سنت مؤکدہ کے حکم کے متعلق فتاوی رضویہ شریف میں ہے: ”سنت مؤکدہ کے ایک آدھ بار ترک سے اگرچہ گناہ نہ ہو، عتاب ہی کااستحقاق ہو، مگربارہا ترک سے بلاشبہ گنہگار ہوتا ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 1، صفحہ 596، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
مزید ایک مقام پر ہے: ”سنن مؤکدہ کے ترک میں سخت ملامت ہوگی اور عیاذ باللہ شفاعت سے محرومی بھی وارد۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد 10، صفحہ 796، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
حاشیۃ الطحطاوی على مراقی الفلاح میں ہے:
”ترك السنة المؤكدة قريب من الحرام يستحق حرمان الشفاعة“
ترجمہ: سنت مؤکدہ کو ترک کرنا حرام کے قریب ہے اسے ترک کرنے والامعاذاللہ شفاعت سے محروم ہو جائے گا۔ (حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح، باب سنن الوضوء، صفحه64، مطبوعه بيروت)
شفاعت عظمی تمام مخلوقات کے لیے ہوگی۔ چنانچہ اسی میں ہے:
”وأما الشفاعة العظمى فعامة لجميع المخلوقات“
ترجمہ: بہر حال شفاعت عظمی تمام مخلوقات کے لیے عام ہوگی۔ (رد المحتار، باب الوتر والنوافل، جلد2، صفحہ 14، مطبوعہ بیروت)
اسی بارے میں حکیم الامت مفتی محمد احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”حضور کی شفاعت کی بہت قسمیں ہیں: میدان محشر سے نجات دلانے کی شفاعت، گناہ معاف کرانے کی شفاعت، درجے بلند کرانے کی شفاعت پہلی شفاعت سے کفاربھی فائدہ اٹھائیں گے۔“ (مرآۃ المناجیح، جلد8، صفحہ284، مطبوعہ حسن پبلیشرز، لاھور)
مذکورہ فرمان ترک سنت سے نفرت دلانے کے لیے ہے۔ چنانچہ حاشیہ طحطاوی علی در المختار میں ہے:
” ولعله للتنفير عن الترك“
ترجمہ: (مذکورہ وعید) ترک سنت سے نفرت دلانے کے لیے ہے۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی در المختار، کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، جلد2، صفحہ 410، مطبوعہ بیروت )
سنت چھوڑنے کی وجہ سے مخصوص شفاعت سے محروم رہنے کے بالترتیب جزئیات۔
(1)خاص سنت پر عمل کی وجہ سے ملنے والی شفاعت سے محرومی۔ چنانچہ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:
”أي الشفاعة الخاصة المترتبة على فعلها“
ترجمہ: یعنی خاص سنتوں کو ادا کرنے سے ملنے والی شفاعت (سے محرومی ہو گی)۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، کتاب الصلاۃ، صفحہ 389، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت)
(2)ایسا شخص بلندی درجات کی شفاعت سے محروم ہوگا۔ چنانچہ حاشیہ طحطاوی علی الدرمیں ہے:
” أو شفاعته الخاصة بزيادة الدرجات“
ترجمہ: خاص درجات کی زیادتی کی شفاعت (نہ ملے گی)۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی در المختار، کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، جلد2، صفحہ 410، مطبوعہ بیروت )
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ” جس حدیث میں ارشاد ہے کہ سنت چھوڑنے والا شفاعت سے محروم ہے۔ اس سے بلندی درجات کی شفاعت مراد ہے، یعنی اس کے درجے بلند نہ کرائے جائیں گے۔“ (علم القرآن، صفحہ 158، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
(3) میدان محشر کی بعض ہولناکیوں کی شفاعت نہیں ہوگی۔ چنانچہ خیالی شرح عقائد میں ہے:
”فحرمان کونہ مشفوعا۔۔۔فی بعض مواقف الحشر مثل السوال والحساب“
ترجمہ : میدان محشر کی بعض ہولناکیوں جیسے: حشر، سوال، حساب کی شفاعت سے محروم ہونا ہے۔ (الخیالی علی شرح العقائد، الکلام الشفاعۃ ثابتۃ للرسل، صفحہ 127، مطبوعہ پشاور)
(4) جہنم میں داخلے سے روکے جانے کی شفاعت نہیں ہوگی۔ چنانچہ شرح عقائد نسفی میں ہے:
”انہ لایکون مشفوعا لعدم دخول النار “
ترجمہ: اس کی جہنم میں داخل نہ ہونے کی شفاعت نہیں کی جائے گی ۔ (شرح العقائد، الشفاعۃ ثابتۃ للرسل، صفحہ 372، مطبوعہ سرگودھا)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
فتوی نمبر: GUJ-0052
تاریخ اجراء: 21 ربیع الآخر 1447ھ/ 15 اکتوبر 2025ء