تجارت میں صدقہ کرنے سے متعلق حدیث کی وضاحت

تاجروں کو صدقے کی ترغیب سے متعلق روایت کی وضاحت

دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے تاجروں کے گروہ! تجارت میں فضول باتیں اور جھوٹی قسمیں آ جاتی ہیں، لہٰذا اسے صدقے سے مخلوط کر دو۔“ حدیث کے متعلق کسی نے کہا ہے کہ جھوٹ بول کے سودا بیچ لو اور کمائے ہوئے پیسے سے کچھ صدقہ کر دو، تو سب جائز ہو جاتا ہے؟ اس کا حکم بتا دیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

 کاروبار اور تجارت میں بھی جھوٹ بولنا یا دھوکا دینا حرام و گناہ ہے اور عیب والی چیز کا عیب بتائے بغیر آگے بیچنا بھی ناجائز و گناہ اور حرام ہے اور تجارت میں جھوٹ بولنے والوں کو احادیثِ کریمہ میں بدکار فرمایا گیا ہے۔ لہٰذا صدقے والی حدیث پاک کا مطلب و مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ معاذ اللہ عزوجل تجارت وغیرہ میں جان بوجھ کر جھوٹ اور دھوکا دہی سے کام لیتے رہو اور صدَقہ و خیرات کر کے سب کچھ جائز کروا لو، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ عام طورپر تجارت میں پوری احتیاط کے باوجود زبان سے فضول بات یا جھوٹ یا جھوٹی قسم وغیرہ نکل جاتی ہے، اور جھوٹ اور جھوٹی قسم اللہ تبارک وتعالی کے غضب کاسبب ہیں اور گناہ کی وجہ سے دل بھی میلا ہو جاتا ہے، لہذا ان کے کفارے اور اپنے دل کی صفائی کے لیے تاجروں کو صدَقہ خیرات کرتے رہنا چاہیے تاکہ صدَقے کی برکت سے اللہ پاک کے غضب کی آگ بجھ جائے اور دل کی گندگی بھی دُھل جائے۔

قرآن وحدیث میں اللہ رب العزت اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے جھوٹ بولنے اور دھوکا دینے کی سخت مذمت فرمائی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا: "دھوکہ دینے والا ہم میں سے نہیں ہے۔"

لہٰذا کاروبار و تجارت میں بھی سچ اختیار کرنا اور جھوٹ وغیرہ ناجائز طریقوں کو چھوڑ دینا سب مسلمانوں پر لازم ہے۔

حدیث پاک میں ہے کہ حضرت قیس بن ابو غرزہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:

”كنا في عهد رسول الله صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نسمى السماسرة، فمر بنا النبي صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم، فسمانا باسم هو أحسن منه، فقال: يا معشر التجار، إن البيع يحضره اللغو والحلف، فشوبوه بالصدقة“

ترجمہ: ہمیں زمانۂ رسالت صلی اللہ تعالی علیہ واٰلہ وسلم میں سودا گر کہا جاتا تھا۔ ہمارے پاس سے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ واٰلہ وسلم گزرے، تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ واٰلہ وسلم نے ہمیں اس سے بہتر نام سے پکارا اور فرمایا: اے تاجروں کے گروہ ! تجارت میں فضول باتیں اور جھوٹی قسمیں آ جاتی ہیں، لہٰذا اسے صدقے سے مخلوط کر دو۔ (سنن ابی داود، جلد3، صفحہ246، حدیث: 3326، مطبوعہ: ہند)

اس حدیث پاک کی شرح میں علامہ شرف الدين حسین بن عبد الله طِیبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

”أقول: ربما يحصل من الكلام الساقط وكثرة الحلف كدورة في النفس، فيحتاج إلي إزالتها وصفائها، أمر بالصدقة ليزيل تلك الكدورة ويصفيها“

 ترجمہ: میں کہتا ہوں: فضول بات اور زیادہ قسمیں کھانے سے بعض اوقات نفس میں کدورت و گندگی پیدا ہو جاتی ہے، لہٰذا اس کے ازالے اور صفائی کی ضرورت ہوتی ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صدقے کا حکم دیا تاکہ وہ اس گندگی کو دور اور نفس کو صاف کر دے۔ (الكاشف عن حقائق السنن، جلد7، صفحہ2119، مطبوعہ:  ریاض)

مفسرِ شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتے ہیں: ”مقصد یہ ہے کہ تجارت میں کتنی ہی احتیاط کی جائے، مگر پھر بھی کچھ لغو (فضول)، کچھ جھوٹ، جھوٹی قسم منہ سے نکل ہی جاتی ہے، اس لیے صدقہ و خیرات ضرور کرتے رہو کہ صدقے سے غضبِ الٰہی کی آگ بجھ جاتی ہے۔“ (مراٰۃ المناجیح، جلد4، صفحہ245، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

تاجروں کے متعلق ترمذی شریف کی حدیث پاک میں ہے

”إِنّ التُّجَار يُبْعثُون يَوْم القِيامَةِ فجَارًا، إلَا منْ اتقى اللہ، وبر، وصدق“

 ترجمہ: بے شک تاجر قیامت کے دن بدکار اٹھائے جائیں گے، سِوائے اُن کے جو اللہ تعالی سے ڈریں، لوگوں کے ساتھ احسان کریں اور سچ بولیں۔ (سنن الترمذی، جلد3، صفحہ507، حدیث: 1210، مطبوعہ: مصر)

مفسرِ شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کی شرح میں فرماتے ہیں: ”پرہیزگاری سے مراد ہے گناہِ کبیرہ سے خصوصًا اور گناہِ صغیرہ کی عادت سے عمومًا بچتے رہنا۔ نیکی سے مراد ہے اپنے کاروبار کو دھوکا، خیانت سے محفوظ رکھنا۔ سچ سے مراد سودے کے متعلق صاف بات کرنا، اگر عیب دار ہو، تو اس کو بے عیب ثابت کرنے کی کوشش نہ کرنا۔ مطلب یہ ہے کہ قیامت میں سارے تاجر فاسق وفاجر ہوں گے، سوائے ان کے جن میں یہ تین صفات ہوں، پرہیزگاری، بھلائی، سچائی۔“ (مراٰۃ المناجیح، جلد4، صفحہ245، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے

”أن رسول الله صلی اللہ تعالی علیہ وسلم مر على صبرة طعام. فأدخل يده فيها. فنالت أصابعه بللا. فقال «ما هذا يا صاحب الطعام؟» قال: أصابته السماء. يا رسول الله! قال «أفلا جعلته فوق الطعام كي يراه الناس؟ من غش فليس مني»“

 ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ و سلم غلے کے ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے، تو اپنا مبارَک ہاتھ اس میں ڈال دیا، آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی انگلیوں کوتری پہنچی، تواس پر فرمایا: اے غلےوالے ! یہ کیا ہے؟عرض کی: یارسول اللہ (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ و سلم) ! اس پر بارش پڑ گئی ہے۔ فرمایا: تو گیلے حصے کواوپر کیوں نہ کیاکہ لوگ اسے دیکھ لیتے۔؟ جو ملاوٹ کرے، وہ ہم میں سے نہیں۔ (صحیح مسلم، جلد1، صفحہ99، حدیث: 102، دار احیاء التراث العربی، بیروت)

بہار شریعت میں ہے ”تجارت بہت عمدہ اور نفیس کا م ہے، مگر اکثر تجار کذب بیانی سے کام لیتے بلکہ جھوٹی قسمیں کھالیا کرتے ہیں اسی لیے اکثر احادیث میں جہاں تجارت کا ذکر آتا ہے، جھوٹ بولنے اور جھوٹی قسم کھانے کی ساتھ ہی ساتھ ممانعت بھی آتی ہے اور یہ واقعہ بھی ہے کہ اگر تاجر اپنے مال میں برکت دیکھنا چاہتا ہے تو ان بُری باتوں سے گریز کرے۔ تاجروں کی انہیں بدعنوانیوں کی وجہ سے بازار کو بدترین بُقعۂ زمین(زمین کا بدترین مقام) فرمایا گیا اور یہ کہ شیطان ہر صبح کو اپنا جھنڈا لے کر بازار میں پہنچ جاتا ہے اور بے ضرورت بازار میں جانے کو بُرابتایا گیا۔“ (بہار شریعت، جلد2، حصہ11، صفحہ613، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد شفیق عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4413

تاریخ اجراء: 15جمادی الاولی1447 ھ/07نومبر2025 ء