تلاوت میں نام محمد ﷺ آنے پر انگوٹھے چومنا کیسا؟

تلاوت سنتے ہوئے لفظِ محمد ﷺ پر انگوٹھے چومنے اور درود پڑھنے کا حکم؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جب تیجے وغیرہ کا ختم شریف پڑھا جاتا ہے تو ختم شریف پڑھنے والا جب اس آیت

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ

کو پڑھتا ہے توپڑھنے والا قرآن پاک پڑھنا جاری رکھتا ہے اور سننے والوں میں سے بعض لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پاک سن کرزبان سے درود پاک بھی پڑھتے ہیں اور انگوٹھے بھی چومتے ہیں، اس کے بارے میں شرعی حکم بیان فرما دیجئےکیا یہ درست ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

ختم شریف جس مجمعے میں پڑھا جاتا ہے،عموما وہ مجمع قرآن پاک سننے کیلئے ہی موجود ہوتا ہے اور ختم شریف پڑھنے والا، مجمع کو قرآن سنانے کیلئے ہی بلندآواز سےپڑھتا ہے،لہذا جب ختم شریف پڑھا جائے تو قرآن پاک کے حکم کے مطابق اس مجمع میں سننے کیلئے جمع ہونے والے حاضرین پر قرآن پاک کا سننا بھی لازم ہے اور خاموش رہنا بھی لازم وضروری ہے۔آیت مبارکہ

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ

میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پاک سن کرزبان سے درودپاک پڑھیں گے تو جو خاموش رہنے کا حکم ہے وہ پورا نہیں ہوگا ،اس لئے اس موقع پر درودپاک پڑھنا جائز نہیں ہوگا۔انگوٹھے چومنے کے عمل میں بھی اَولیٰ وانسب یہی ہے کہ جب قرآن پاک پڑھا جارہا ہے تو یہ عمل نہ کیا جائے،البتہ اگر کسی نے کرلیا تو اس کو ناجائزوگناہ نہیں کہیں گے الا یہ کہ ایسا طریقہ ہو جو سننے میں خلل کا باعث بن جائے۔

اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ

ترجمہ کنز العرفان: اورجب قرآن پڑھا جائے تو اسے غورسے سنو اورخاموش رہو تاکہ تم پررحم کیا جائے۔ (پارہ 9، سورۃ الاعراف، آیت 204)

تفسیر ابوالسعود میں اس آیت کریمہ کے تحت ارشاد فرمایا:

ظاھر النظم الکریم یقتضی وجوب الاستماع والانصات عند قراءۃ القرآن فی الصلاۃ وغیرھا

ترجمہ: قرآن پاک کی نظم کریم کا ظاہر اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ نماز میں یا نماز کے علاوہ جب بھی قرآن پاک پڑھا جائے تو اس کا سننا اور خاموش رہنا واجب ہے۔ (تفسیرابو السعود جلد 3،صفحہ 310، مطبوعہ بیروت)

جب لوگ قرآن پاک سننے کیلئے جمع ہوں تو اس کے بارے میں امام اہلسنت امام احمدرضاخان رحمہ اللہ نے فرمایا:”اگر وہ سب اسی غرضِ واحد کیلئے ایک مجلس میں مجتمع ہیں تو سب پرسننے کا لزوم چاہیے ،جس طرح نماز میں جماعتِ مقتدیان کہ ہر شخص پراستماع وانصات جداگانہ فرض ہے یا جس طرح جلسہ خطبہ کہ ان میں ایک شخص مُذکِّر اور باقیوں کو یہی حیثیتِ واحدہ تذکیر، جامع ہے تو بالاتفاق ان سب پرسننا فرض ہے ،نہ یہ کہ استماعِ بعض کافی ہو،جب تذکیرمیں کلامِ بشیرکا سننا سب حاضرین پرفرضِ عین ہوا تو کلامِ الٰہی کا استماع بدرجہ اولی۔“(فتاوی رضویہ جلد23،صفحہ353،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

آیت کریمہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر انگوٹھے چومنے کا عمل ناجائزوگناہ نہیں ہے ،البتہ ترک بہتر ہے۔ رد المحتار میں خطبے کے احکام کےبارےمیں فرمایا

الأصح انہ لا بأس بأن یشیر برأسہ

اس کے تحت جدالممتار میں فرمایا:

أفاد أن ھذا القدر لایخل بالاستماع والا لحرم،فیمکن علی ھذا تخریج ما اعتادہ الناس فی زماننا من تقبیل الابھامین ووضعھما علی العینین حین بلوغ القاری الی اسم النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فی قولہ تعالٰی: مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ“فلعلہ لایحکم بالتحریم ،وان کان الاولی الترک۔

ترجمہ: ردالمحتار کے کلام نے اس بات کا فائدہ دیا کہ صرف سرکے اشارے کی مقدار،سننے میں خلل نہیں ڈالتی، ورنہ سرکااشارہ بھی حرام ہوتا،اس پر یہ مسئلہ اخذکیا جاسکتا ہے جو ہمارے زمانے میں لوگوں کی عادت ہوچکی ہے کہ جب تلاوت کرنے والا قرآن پاک کی آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پرپہنچتا ہے تو وہ انگوٹھوں کو چوم کرآنکھوں پرلگاتے ہیں،تو اس عمل پربھی حرام ہونے کا حکم نہ لگایا جائے،اگرچہ اولی یہی ہے کہ اسے ترک کیا جائے۔ (جد الممتارجلد 3، صفحہ 241، مطبوعہ بیروت)

امام اہلسنت رحمہ اللہ سے فاتحہ خوانی میں پنج آیت کی تلاوت کے وقت انگوٹھے چومنے کے بارے میں سوال ہواتو آپ نے جواب میں فرمایا:پنجآیت ( یعنی پنج آیت)کے وقت اس فعل کا ذکرکسی کتاب میں نہ دیکھا گیا اورفقیر کے نزدیک یہاں پربنائے مذہبِ ارجح واصح،غالبا ترک زیادہ انسب والیق ہونا چاہیے۔ (فتاوی رضویہ جلد22،صفحہ 355،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو محمد محمد فراز عطاری مدنی

مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: OKR-0034

تاریخ اجراء: 28 محرم الحرام 1447 ھ/ 24 جون 2520 ء