
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ اس حدیث "سارے انسان خطا کار ہیں، اور خطا کاروں میں سب سے بہتر وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں" کا مفہوم اور حوالہ کیا ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
مذكوره حديثِ مبارکہ کے الفاظ یہ ہے
عن انس، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم:کل بنی آدم خطّاء وخیر الخطائین التوابون
ترجمہ: حضرتِ سیّدُنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ہر انسان بہت خطا کار ہے، اوربہت خطائیں کرنے والوں میں سب سے بہتر توبہ کرنے والے ہیں۔
مذکورہ حدیثِ مبارکہ احادیث کی کئی کتابوں میں موجود ہے، چند حوالہ درج ذیل ہیں:
(1) سننِ ابنِ ماجہ، جلد 5، صفحہ 321، حدیث: 4251، دار الرسالۃ العالمیۃ۔
(2) مشکوٰۃ المصابیح، جلد 2، صفحہ 724، حدیث: 2341، المکتب الاسلامی، بیروت۔
(3) مسند الدارمی، جلد 3، صفحہ 1793، حدیث: 2769، مطبوعہ السعودیۃ۔
حدیث پاک کے معنی کےمتعلق وضاحت:
یہ یادرہے کہ! جوانسان معصوم ہیں جیسے انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام ،وہ اس میں شامل نہیں ہیں ،اسی طرح جسے اللہ تعالی محفوظ رکھے وہ بھی شامل نہیں ،یہاں انسانوں کی غالب اکثریت مرادہے ۔اوراس کامفہوم کچھ یوں ہے کہ :
انسان میں فطرتابھول چوک رکھی گئی ہے ،اوربھولنے سے خطاونافرمانی کاصدورہوتاہے،لہذاعموماانسان سے کسی نہ کسی طورپرخطاؤں کا صدور ہوتارہےگا،اب اگرخطا کے بعدوہ اس پراڑارہے تویہ اس کے لیے نقصان دہ ہے اوراگروہ اس سے رجوع کرلے، توبہ واستغفارکرلے تویہ اس کے لیے فائدہ مندہے، لہذاخطاہوجانے کے بعدتوبہ واستغفارکرنے والے دوسروں کے مقابلے میں بہترین اورفائدہ اٹھانے والےلوگ ہیں۔
مرقاۃ المفاتیح میں ہے
قد يقال: الحكمة في عدم الإطاقة على دوام الإطاعة أن تراب الإنسان عجن بماء النسيان الناشئ عنه العصيان؛ ولذا قال - عليه الصلاة و السلام -: ( «كلكم خطاءون، وخير الخطائين التوابون»)
ترجمہ: کہا جاسکتا ہے کہ: انسا ن کوہمیشہ اطاعت وفرمانبرداری میں رہنے کی طاقت نہ ہونےکی حکمت یہ ہے کہ انسان کی مٹی اس نسیان کے پانی سے گوندھی گئی ہے، جس سے نافرمانی کا صدور ہوتا ہے ،اسی لئے حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:تم سب بہت خطاکار ہو اور بہت خطا کاروں میں سب سے بہتر توبہ کرنے والے ہیں۔ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الایمان، جلد 01، صفحہ 84، دار الفکر، بیروت)
تیسیرشرح جامع صغیرمیں ہے
(كل بني آدم خطاء)۔۔۔ أي غالبهم (وخير الخطائين التوابون) فلابد أن يجري على العبد ما سبق به القدر فكأنه قال لابد لك من فعل الذنوب لأنها مكتوبة عليك فأحدث توبة فإنه لا يؤتى العبد من فعل المعصية وإن عظمت بل من ترك التوبة
ترجمہ:(تمام بنی آدم بہت خطاکار ہیں)۔۔ یعنی اکثر بنی آدم (اور بہت خطاکاروں میں سب سے بہتر توبہ کرنے والے ہیں) پس ضروری ہے کہ بندے پر وہ جاری ہو جو تقدیر میں طے ہوچکا،گویا کہ فرمایا: تم سے گناہوں کا صدور ہونا ضروری ہے کیونکہ وہ تم پر لکھے جا چکے ہیں، پس توبہ کرو کہ بندے کی پکڑمحض معصیت سے نہیں ہوتی اگرچہ وہ کتنی بڑی ہوبلکہ توبہ نہ کرنے سے ہوتی ہے۔ (التیسیربشرح الجامع الصغیر، ج 02، ص 212، مکتبۃ الامام الشافعی، الریاض)
بہارشریعت میں ہے "نبی کا معصوم ہونا ضروری ہے اور یہ عصمت نبی اور مَلَک کا خاصہ ہے، کہ نبی اور فرشتہ کے سوا کوئی معصوم نہیں۔۔۔ عصمتِ انبیا کے یہ معنی ہیں کہ اُن کے لیے حفظِ الٰہی کا وعدہ ہو لیا، جس کے سبب اُن سے صدورِ گناہ شرعاً محال ہے بخلاف ائمہ و اکابر اولیا، کہ اﷲ عزوجل اُنھیں محفوظ رکھتا ہے، اُن سے گناہ ہوتا نہیں، مگر ہو تو شرعاً محال بھی نہیں۔" (بہار شریعت، ج 1، حصہ 1، ص 38، 39،مکتبۃ المدینہ)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4196
تاریخ اجراء: 04ربیع الاول1447ھ/29اگست2025ء