کیا معدے کے السر کی وجہ سے روزہ چھوڑ سکتے ہیں؟

معدے کے السر کی وجہ سے روزہ چھوڑنا کیسا؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:HAB-0525

تاریخ اجراء:27   شعبان المعظم 1446 ھ/26 فروری 2025 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ آج سے کچھ دن پہلے میرے معدے میں تکلیف اٹھی اور کھانا وغیرہ  بالکل  ہضم نہیں ہورہا  تھا، اس کے بعد میں نے علاج کروایا تو  یہ تکلیف ختم ہوگئی، لیکن اب معدہ بھاری بھاری رہتا ہے، ڈاکٹر نےمعدے کا السر  مجھے بتایا ہے، اس کا بھی علاج ابھی چل رہا ہے، تو کیا میں اس کی وجہ سے رمضان کے روزے چھوڑ سکتا ہوں؟ میرے گھر میں  میری ایک بہن کو یہی تکلیف ہے، انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ اس  بیماری میں کھاتے پیتے رہنا ضروری ہوتا ہے ورنہ  خالی پیٹ رہنے سے تکلیف بہت بڑھ جاتی ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   معدے کا السر ہو یا کوئی اور بیماری، یہ مطلقاً روزے چھوڑنے  کیلئے  شرعی عذر نہیں مانا جائے گا، بہت سے معدے کے السر والے مریض ایسے ہیں جو رمضان شریف کا روزہ رکھتے ہیں اور ان  کی بیماری  نہیں بڑھتی، لہٰذا اگر ایسی معمولی قسم کی بیماری ہو تو روزہ چھوڑنے کیلئے عذر نہیں، اگر چھوڑیں گے تو گنہگار ہوں گے۔ ہاں اگر معدے کے السر کی نوعیت اس طرح کی ہو کہ روزہ رکھنا ضرر کا باعث ہو  یعنی اگر روزہ رکھا جائے  تو   مرض  بڑھ جانے یا دیر سے  صحیح ہونے کا غالب گمان ہو تو ایسی صورت میں روزہ چھوڑ سکتے ہیں  اورصحیح  ہونے پر  اس کی قضاء  لازم ہوگی  اور یہاں  غالب گمان سے مراد یہ ہے کہ یا تومرض بڑھ جانے وغیرہ کی  کوئی واضح نشانی و علامت پائی جائےیا مریض کا   تجربہ ہو یا کسی مسلمان  ماہر ڈاکٹر نے خبر دی ہو جس کا فاسق ہونا،  معلوم نہ ہو اور اگر ایسا طبیب نہ ہو تو کم از کم  یہ ہو کہ وہ ڈاکٹر اپنی فنی مہارت میں معروف ہو، محض ڈگریوں کی لائنوں کو دیکھ کر ماہر نہ سمجھا جائے اور اس میں بھی احتیاط یہ ہے کہ ایک سے زائد ڈاکٹروں سے رائے لے۔

   یہ بات یاد رہے کہ محض آپ اپنی بہن کے بتائے ہوئے تجربے کی بنیاد پر روزہ نہیں چھوڑ سکتے، کیونکہ یہاں شرعاً خود مریض کا  تجربہ  معتبرہے، کسی دوسرے شخص کے کہنے  پر روزہ چھوڑنا، جائز نہیں، اگرچہ وہ بھی اسی مرض میں مبتلا ہو۔

   مریض کے روزہ رکھنے نہ رکھنے کے احکام کے متعلق، امام برہان الدین مرغینانی علیہ الرحمۃ ہدایہ میں لکھتے ہیں: ”و من كان مريضا في رمضان فخاف إن صام ازداد مرضه أفطر و قضى“ ترجمہ: اور جو رمضان میں بیمار ہو  اور اس کو  روزہ رکھنے پر مرض بڑھ جانے کا خوف ہو  تو وہ روزہ نہ رکھے اور قضا کرے۔(الھدایۃ شرح البدایۃ، ج 01، ص 123، دار احياء التراث العربي - بيروت - لبنان

   غایۃ السروجی شرح ہدایہ میں ہے :”ان بعض الامراض ینفعہ  الصوم و البعض یضرہ و لیس کل الامراض تضر الصائم  فلم یصلح نفس المرض  ان یجعل ضابطا و السفر الطویل مظنۃ المشقۃ و الحرج  فادیر الحکم علیہ ۔۔ و فی الذخیرۃ :المرض الذی یبیح الفطر :ما یخاف منہ الموت او زیادۃ المرض و مثلہ فی مختصر  ابی حسن الکرخی“ ترجمہ: بعض بیماریوں میں روزہ فائدہ مند ہوتا ہے  اور بعض میں نقصان دہ ہوتا ہے  اور  ہر مرض روزے دار کو  نقصان نہیں پہنچاتا  تو نفس مرض کو ضابطہ بنانا ممکن نہیں  اور لمبا سفر  مشقت و حرج کا باعث ہے  تو اسی حرج  و مشقت پر مسئلہ کی بنیاد رکھی جائے گی  اور ذخیرہ میں ہے کہ وہ مرض جس  کی وجہ سے روزہ ترک کرنا جائز ہوجاتا ہے، وہ یہ ہے کہ جس سے موت کا  یا مرض بڑھ جانے کا خوف ہو اور اسی کی مثل مختصر ابو الحسن الکرخی میں ہے۔ (غایۃ السروجی شرح الھدایۃ، ج 07، ص 414، مکتبۃ الامام الذھبی للنشر و التوزیع)

   امام ابن الہمام علیہ الرحمۃ فتح القدیر میں لکھتے ہیں :”أن قوله تعالى {فمن كان منكم مريضا أو على سفر فعدة من أيام أخر} يبيح الفطر لكل مريض، لكن القطع بأن شرعية الفطر له إنما هو لدفع الحرج، و تحقق الحرج منوط بزيادة المرض أو إبطاء البرء أو فساد عضو، ثم معرفة ذلك باجتهاد المريض، والاجتهاد غير مجرد الوهم، بل هو غلبة الظن عن أمارة أو تجربة أو بإخبار طبيب مسلم غير ظاهر الفسق“ ترجمہ: بلاشبہ اللہ تعالیٰ کا فرمان :تو تم میں جو کوئی بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں رکھے، ہر مریض کیلئے روزہ چھوڑنے کو مباح قرار دیتا ہے، لیکن یہ بات بھی یقینی ہے کہ  اس کیلئے روزہ چھوڑنے کی اجازت دفعِ حرج کی وجہ سے ہے  اور حرج  کا متحقق ہونا مرض بڑھ جانے یا دیر سے صحیح ہونے  یا کسی عضو کے تلف ہوجانے کے ساتھ متعلق ہے، پھر اس کی معرفت  مریض کے اجتہاد سے ہوگی  اور اجتہاد سے مراد صرف وہم نہیں ہے بلکہ وہ غالب گمان مراد ہے جو کسی علامت یا تجربہ یا  ایسے مسلمان ڈاکٹر کے بتانے سے حاصل ہو جس کا فسق ظاہر نہ ہو۔ (فتح القدیر، ج 02، ص 350، دار الفكر، بیروت)

   سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاوٰی رضویہ میں فرماتے ہیں :”جو شخص روزہ خود رکھ سکتا ہو اور ایسا مریض نہیں جس کے مرض کو روزہ مضر ہو، اس پر خود روزہ رکھنا فرض ہے اگرچہ تکلیف ہو۔“ (فتاویٰ رضویہ، ج 10، ص 521، رضا فاؤنڈیشن)

   تجربہ سے  مراد خود  مریض کا اپنا تجربہ ہے، دوسرے کے تجربہ کی بنیاد پر روزہ چھوڑنا، جائز نہیں اگرچہ دونوں کا مرض ایک جیسا ہو، چنانچہ  علامہ شامی علیہ الرحمۃ نے لکھا :”(قوله أو تجربة) و لو كانت من غير المريض عند اتحاد المرض ط عن أبي السعود“ ترجمہ: (شارح علیہ الرحمۃ کا قول: یا تجربہ ہو)اگرچہ  یہ مریض کے علاوہ کسی اور شخص کا تجربہ ہو جبکہ دونوں کا مرض متحد ہو (تب بھی روزہ چھوڑ سکتا ہے)، اس کو  طحطاوی  علیہ الرحمۃ نے ابو السعود علیہ الرحمۃ سے نقل کیا۔ (رد المحتار علی الدر المختار، ج 02، ص 422، دار الفکر)

   امام اہلسنت علیہ الرحمۃ اس پر جد الممتار میں لکھتے ہیں :”اقول: لم یعزہ لاحد و فی الاستناد الی اطلاق  التجربۃ نظر، لان المتبادر من التجربۃ تجربۃ نفسہ، و لا شک ان النفع و الضرر یختلف باختلاف الامزجۃ مع اتحاد المرض و کذا اختلاف البقاع و کذا اختلاف الموسم الی غیر ذالک من الخصوصیات“ ترجمہ: میں کہتا ہوں:   انہوں نے اس کو  کسی کی طرف منسوب نہ کیا اور تجربہ کو اس طرح مطلق رکھنے  سے استناد  کرنے  میں نظر ہے، کیونکہ تجربہ سے متبادر  خود اس کا اپنا تجربہ ہے، اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ  اگرچہ مرض متحد ہو پھر بھی  مزاجوں کے مختلف ہونے سے  نفع  اور نقصان بھی مختلف ہوجاتا ہے، اسی طرح جگہوں کے مختلف ہونے، موسم  کے مختلف ہونےاور ایسے ہی ان کے علاوہ  دوسری خصوصیات  کا معاملہ ہے۔  (جد الممتار، ج 04، ص 273، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم