
مجیب:مولانا محمد شفیق عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3651
تاریخ اجراء:17رمضان المبارک 1446ھ/18مارچ2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
میں ایک کمپنی کے کچن میں کام کرتا ہوں ، جہاں تقریباً 25,000 افراد کے لیے کھانا بنتا ہے،میرا کام یہ ہے کہ میں چاول بناتا ہوں اور چاول چبا کر چیک کرنے ہوتے ہیں، تو کیا روزانہ چاول چبا کر چیک کرنا ٹھیک ہے، اس سے روزہ تو نہیں ٹوٹے گا جبکہ میں چاول کھاتا نہیں ہوں ، صرف چیک کر کے اُگل دیتاہوں ۔؟ رہنمائی فرما دیں ۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں اگر عذر نہ ہو جیسے تجربہ کی بنیاد پر چاول چکھے بغیر ہی آپ چاول بالکل صحیح بنا لیتے ہوں یاکوئی ایساہے کہ جسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے اوراس نے روزہ نہیں رکھااوراسے چکھاکرصحیح بنالیتے ہوں تو پھر ایسی صورت میں آپ کا چاول چکھنا مکروہ ہوگا اور اگرایسا عذر ہو کہ چکھے بغیرچارہ نہ ہوجیسے وہاں کوئی دوسراغیرروزہ دار چکھنے والانہیں ہےاور بغیر چکھے چاول بنانے کی صورت میں صحیح نہ بنتےہوں کہ جس کی وجہ سے کمپنی شکایت کرتی ہو تو پھر آپ چکھ سکتے ہیں کہ زبان پر رکھ کر تھوک دیں ، ہاں حلق سے نیچے ذرہ برابر بھی نہ اترے ورنہ روزہ ٹوٹ جائے گاجبکہ روزہ دار ہونا یاد ہو، بلکہ اگر کفارہ کی شرائط پائی گئیں، تو کفارہ بھی لازم ہو گا۔
درمختارمیں ہے ’’(وكره) له (ذوق شيء و) كذا (مضغه بلا عذر) ‘‘ترجمہ: اور روزہ دار کیلئے بلاعذرکسی چیز کا چکھنا اور اسی طرح اس کاچبانا، مکروہ ہے ۔(درمختارمع ردالمحتار ، جلد02، صفحہ416، دارالفکر، بیروت)
مراقی الفلاح میں ہے” و كره مضغة بلا عذر كالمرأة إذا وجدت من يمضغ الطعام لصبيها أو كمفطرة لحيض أما إذ لم تجد بدا منه فلا بأس بمضغها لصيانة الولد ۔۔۔ وللمرأة ذوق الطعام إذا كان زوجها سيئ الخلق لتعلم ملوحته۔۔۔ وكذا الأمة قلت وكذا الأجير“ترجمہ:روزے کی حالت میں بلاعذر کسی چیز کا چکھنا مکروہ ہے مثلاً عورت کے پاس کوئی ایسا ہے جو اس کے بچے کے لئے کھانا چبا دے یا وہ حیض کی وجہ سے روزہ دار نہیں،بہرحال اگر اس کے لئے چکھے بغیر چارہ کار نہ ہو تو بچے کو بچانے کے واسطے اس کے لئے کھانا چبانے میں حرج نہیں،اور عورت کا شوہر اگر بداخلاق ہو تو نمک چیک کرنے کے لئے کھانا چکھنے میں اس کے لئے حرج نہیں یونہی لونڈی کے لئے اور میں کہتا ہوں یونہی اجیر کے لئے بھی۔
اس کے تحت حاشیہ طحطاوی میں ہے” قوله: "كذا الأجير" أي للطبخ“ترجمہ:یہاں اجیرسے مرادوہ ہے جو کھانا پکانے پراجیر ہو۔(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح،ص 679، دار الكتب العلمية، بيروت)
بہار شریعت میں ہے :” روزہ دار کو بلاعذر کسی چیز کا چکھنا یا چبانا مکروہ ہے۔ چکھنے کے لیے عذر یہ ہے کہ مثلاً عورت کا شوہر یا باندی غلام کا آقا بدمزاج ہے کہ نمک کم و بیش ہوگا تو اس کی ناراضی کا باعث ہوگا اس وجہ سے چکھنے میں حرج نہیں، چبانے کے لیے یہ عذر ہے کہ اتنا چھوٹا بچہ ہے کہ روٹی نہیں کھا سکتا اور کوئی نرم غذا نہیں جو اُسے کھلائی جائے، نہ حیض و نفاس والی یا کوئی اور بے روزہ ایسا ہے جو اُسے چبا کر دیدے، تو بچہ کے کھلانے کے لیے روٹی وغیرہ چبانا مکروہ نہیں۔ چکھنے کے وہ معنی نہیں جو آج کل عام محاورہ ہے یعنی کسی چیز کا مزہ دریافت کرنے کے لیے اُس میں سے تھوڑا کھا لینا کہ یوں ہو تو کراہت کیسی روزہ ہی جاتا رہے گا، بلکہ کفارہ کے شرائط پائے جائیں تو کفارہ بھی لازم ہوگا۔ بلکہ چکھنے سے مراد یہ ہے کہ زبان پررکھ کر مزہ دریافت کر لیں اور اُسے تھوک دیں اس میں سے حلق میں کچھ نہ جانے پائے۔ ۔۔۔۔ کوئی چیز خریدی اور اس کا چکھنا ضروری ہے کہ نہ چکھے گا تو نقصان ہوگا، تو چکھنے میں حرج نہیں ورنہ مکروہ ہے۔" ( بہار شریعت ، جلد 01 ، صفحہ 997،996، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم