دن میں دوائی لینے کی وجہ سے روزہ چھوڑنے کا شرعی حکم

دن میں دوائی لینے کے عذرسے روزہ چھوڑنا

مجیب:ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3644

تاریخ اجراء:03 رمضان المبارک 1446 ھ/ 04 مارچ 2025 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   مجھے آنت میں انفیکشن ہے، ڈاکٹر نے دن میں تین دفعہ دوائی لینے کا کہا ہے، اور کہا ہے کہ اگر دن میں دو دفعہ دوائی  لی تو مسئلہ حل نہیں ہوگا، اب ایسی صورت میں کیا  دن میں تین بار دوائی استعمال کرنے کیلئے روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر  اُس دوا کو لینے میں وقت کی کوئی پابندی نہ ہو اور وہ  دوا دن میں تین دفعہ اس طرح استعمال کی جاسکتی ہو کہ ایک دفعہ سحری میں، دوسری دفعہ افطاری میں اور تیسری دفعہ رات کے کسی حصے میں کھالی جائے، اور اس سے کوئی ضررنہ ہوتا ہو تو ایسی صورت میں روزہ چھوڑنے کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں ہوگی۔ عام طور پررمضان المبارک  میں روزے کی وجہ سے اس طریقہ کار کے مطابق بھی دوا کھانے کی ڈاکٹر  اجازت دےدیتے ہیں، لہذا اپنے متعلقہ   ڈاکٹر سے اس طریقے کے بارے میں  مشورہ کرلیا جائے۔ ہاں البتہ! بعض دوائیں مقررہ وقت پرہی لینا ضروری ہوتا ہے، ورنہ وہ مؤثر نہیں رہتیں، لہذا   اگر  وہ دوا دن کے کسی ٹائم میں ہی  کھانا ضروری ہو اوردن میں دوا  نہ لینے کے سبب  مرض کے بڑھ جانے یا دیر سے صحیح ہونے کا  صحیح اندیشہ (غالب گمان) ہو، تو اس صورت میں فی الحال   روزہ چھوڑنے کی اجازت ہوگی، اور   بعدمیں چھوٹ جانے والے روزوں کی قضا  کرنی ہوگی۔

   غالب گمان ہونے کی  تین صورتیں  ہیں:

   اس کی کوئی ظاہری نشانی ہویااپناذاتی تجربہ ہو یا مسلمان غیر فاسق ماہر ڈاکٹر کے بتانے سے معلوم ہو اور اگر کہیں غیر فاسق میسر نہ ہو تو غور و فکر کے بعداس کی بات پردل جمتاہوکہ یہ ڈاکٹرخوامخواہ نہیں کہہ رہا، اس صورت  میں بھی  احتیاط یہ  ہے کہ دوتین مزید  ماہر  ڈاکٹروں سے  اس بارے میں مشورہ کرلیا جائے، خاص طورپردینی ذہن رکھنے والے سے۔

   فتاوی ہندیہ میں ہے "(الأعذار التي تبيح الإفطار۔۔۔ و منها المرض) المريض إذا خاف على نفسه التلف أو ذهاب عضو يفطر بالإجماع، و إن خاف زيادة العلة و امتدادها فكذلك عندنا، و عليه القضاء إذا أفطر كذا في المحيط. ثم معرفة ذلك باجتهاد المريض و الاجتهاد غير مجرد الوهم بل هو غلبة ظن عن أمارة أو تجربة أو بإخبار طبيب مسلم غير ظاهر الفسق كذا في فتح القدير. و الصحيح الذي يخشى أن يمرض بالصوم فهو كالمريض هكذا في التبيين‘‘ ترجمہ: وہ اعذار جن میں  روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے، ان میں سے ایک عذر بیماری ہے، اگر بیمار کو اپنی جان کے تلف ہونے یا کسی عضو کے ضائع ہونے کا خوف ہو تو وہ بالاتفاق روزہ چھوڑ سکتا ہے، اور اگر اسے بیماری کے بڑھنے یا طول پکڑنے کا اندیشہ ہو تو ہمارے نزدیک تب بھی  روزہ چھوڑ سکتا ہےاور جب وہ روزہ چھوڑے گا تو اس پر قضا لازم ہوگی، یونہی محیط میں ہے۔ پھر اُس (جان کے ضائع ہونے یا عضو کے تلف ہونے یا بیماری کے بڑھنےیا دیر میں صحیح ہونے) کا علم مریض کے اجتہاد سے ہوگا، اور اجتہاد محض وہم نہیں بلکہ غالب گمان پر مبنی ہوگا جو کسی علامت، تجربے یا کسی مسلمان غیر فاسق طبیب کی خبر سے حاصل ہو،یونہی فتح القديرمیں ہے۔ اور جو تندرست شخص روزہ رکھنے سے بیمار ہونے کا اندیشہ رکھتا ہو، تو وہ بھی مریض کے حکم میں ہوگا، یونہی تبیین میں ہے۔ (الفتاوی الھندیۃ، جلد 1، صفحہ 206 ،207، دار الفکر، بیروت)

   تبیین الحقائق میں ہے "و الظاهر أنه كالفاسق حتى يعتبر في خبره في الديانات أكبر الرأي كما في خبر الفاسق۔۔۔ و من الديانات الإخبار بنجاسة الماء حتى إذا أخبره عدل أنه نجس تيمم، و لا يتوضأ به، و إن كان المخبر فاسقا تحرى فيه، و كذا إذا كان مستورا في الصحيح فإن غلب على ظنه أنه صادق تيمم، و لايتوضأ به۔۔۔ و لو كان أكبر رأيه أنه كاذب يتوضأ به، ولايتيمم" ترجمہ: ظاہر یہی ہے کہ مستور الحال  فاسق کی طرح ہے حتی کہ دیانات کے متعلق اس کی خبر میں ظنِ غالب کا اعتبار ہوگا جیسا کہ فاسق کی خبر میں ہوتا ہے، اور دیانات میں سے پانی کے ناپاک ہونے کی خبر دینا بھی ہے،تو اگر اسے کسی عادل شخص نے پانی کے ناپاک ہونے کی خبر دی تو یہ تیمم کرے، اور اس پانی سے وضو نہ کرے، اور اگر خبر دینے والا فاسق ہو تو تحری کرے، یونہی جب مستور الحال ہو تو بھی صحیح قول کے مطابق تحری کرے،تو اگر اس کے ظنِ غالب میں یہی ہو کہ یہ سچا ہے تو تیمم کرے اور اس پانی سے وضو نہ کرے اور اگر اس کا ظن غالب ہو کہ یہ جھوٹا ہے تو اس پانی سے وضو کرے اور تیمم نہ کرے۔ (تبیین الحقائق، ج 6، ص 13، مطبوعہ: قاھرہ)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ  بہار شریعت میں لکھتے ہیں :" مریض کو مرض بڑھ جانے یا دیر میں اچھا ہونےیا تندرست کو بیمار ہو جانے کا گمان غالب ہو تو ان سب کو اجازت ہے کہ اس دن روزہ نہ رکھیں۔۔۔ ان صورتوں میں غالب گمان کی قید ہے، محض وہم ناکافی ہے۔ غالب گمان کی تین صورتیں ہیں: (1) اس کی ظاہر نشانی پائی جاتی ہے یا (2) اس شخص کا ذاتی تجربہ ہے یا (3) کسی مسلمان طبیب حاذق مستور یعنی غیر فاسق نے اُس کی خبر دی ہو۔"(بہار شریعت، جلد 1، حصہ 5، صفحہ 1003، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم