
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FAM-632
تاریخ اجراء:05 رجب المرجب1446ھ/06جنوری 2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ رمضان یا نفل روزے میں روزہ کھولتے وقت اذان ہوتی ہے، تو لوگ افطار کرتے رہتے ہیں، اذان کا جواب دینے کے لیے رُکتے نہیں ہیں، تو کیا ایسا کرنا درست ہے؟ اذان ہوتے وقت افطار کرتے رہنے والے لوگ گنہگار ہوں گے یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مفتیٰ بہ و راجح قول کےمطابق زبان سے اذان کا جواب دینامستحب ہے ،واجب نہیں ہے،پھر فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق کھانا کھانے والے شخص كو تو ویسے بھی كھانے کے دوران اذان کا جواب نہ دینے کی رُخصت حاصل ہے یعنی اس پراذان کا جواب نہیں ہے، لہذا اگر روزے دار شخص افطار کررہا ہواور اس دوران اذان ہوجائے، تو وہ افطار کو جاری رکھ سکتا ہے،ایسا کرنے والا گنہگار نہیں ہوگا،ہاں البتہ حصولِ ثواب کے لئے بہتر یہ ہے کہ اگر اذان سے پہلے کھانا پینا شروع کردیا ہو تو اذان ہونے پر مزید کھانا پینا موقوف کرکے اذان کا جواب دیا جائے ،اور اگر اذان شروع ہونے پر ہی افطار کیا ہو تو کچھ کھاپی کر جیسے ایک آدھ کھجور اور پانی وغیرہ سے افطار کرکے پہلے اذان کا جواب دینے کیلئے رُک جائے اور پھر اذان کے بعد اگر مزید کچھ کھانا پینا چاہے تو کھاپی لے لیکن ایسا نہ کرے تو بھی گنجائش ہے۔
تنویر الابصار مع در مختار میں ہے: ’’(ويجيب) وجوبا، و قال الحلواني ندبا، والواجب الإجابة بالقدم (من سمع الأذان) و لو جنبا لا حائضا و نفساء و سامع خطبة و في صلاة جنازة و جماع، و مستراح و أكل و تعليم علم و تعلمه‘‘ ترجمہ: اور اذان کا جواب دے وجوبی طور پر اور امام حلوانی نے فرمایا کہ استحبابی طور پر اور اجابت بالقدم واجب ہے، جو شخص اذان کو سنے اگرچہ جنبی ہو، نہ کہ حیض و نفاس والی اور خطبہ سننے والا اور نماز جنازہ ادا کرنے والا، اور جماع، قضائے حاجت، کھانے پینے اور علمِ دین سیکھنے سکھانے میں مشغول افراد (کہ ان لوگوں پر اذان کا جواب نہیں۔)(تنویر الابصارمع درمختار، جلد 2، صفحہ 79- 81، دار المعرفۃ، بیروت)
مراقی الفلاح میں ہے: ’’و لا يجيب في الصلاة و لو جنازة و خطبة وسماعها و تعلم العلم و تعليمه و الأكل و الجماع و قضاء الحاجة‘‘ ترجمہ: اور نماز میں اگرچہ نماز جنازہ ہو اور خطبہ دینے اور سننے، اور علم دین سیکھنے اور سکھانے اور کھانا کھانے اور ہمبستری اور قضائے حاجت کے دوران اذان کا جواب نہیں دے گا۔(مراقی الفلاح، جلد 1، صفحہ 80، المكتبة العصرية)
بحرا لرائق میں ہے: ’’لا تجب الإجابة عند الأكل كما صرح به‘‘ ترجمہ: کھاتے وقت اذان کا جواب واجب نہیں جیسا کہ فقہائے کرام نے اس کی تصریح فرمائی ہے۔(البحر الرائق، جلد 1، صفحہ 274، دار الکتاب الاسلامی، بیروت)
حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے: ’’إختلف في الإجابة فقيل واجبة وهو ظاهر ما في الخانية والخلاصة والتحفة وإليه مال الكمال۔۔۔ وقيل مندوبة وبه قال مالك والشافعي وأحمد وجمهور الفقهاء واختاره العيني في شرح البخاري ۔۔۔ وصرح في العيون بأن الإمساك عن التلاوة و الاستماع إنما هو أفضل وصرح جماعة بنفي وجوبها باللسان وأنها مستحبة حتى قالوا: إن فعل نال الثواب وإلا فلا أثم ولا كراهة ۔۔۔ و في مجمع الأنهر عن الجواهر إجابة المؤذن سنة وفي الدرة المنيفة أنها مستحبة على الأظهر والحاصل أنه اختلف التصحيح في وجوب الإجابة باللسان والأظهر عدمہ‘‘ ملتقطاً۔ ترجمہ: اذان کے جواب کے بارے میں اختلاف ہے، کہا گیا ہے کہ اذان کا جواب واجب ہےاور یہی خانیہ، خلاصہ اور تحفہ کا ظاہر ہے اور اسی کی جانب علامہ کمال رحمۃ اللہ علیہ مائل ہوئے۔۔۔ اور ایک قول یہ کہا گیا کہ اذان کا جواب مستحب ہے اور یہی امام مالک، امام شافعی، امام احمد اور جمہور فقہاء نے فرمایا اور اسی کو علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے بخاری کی شرح میں اختیار فرمایا ہے اور عیون میں صراحت کی کہ اذان کے وقت قرآن کریم کی قراءت کرنے اور سننے سے رُکنا افضل ہے اور ایک جماعت نے زبان سے جواب کے عدم وجوب کی صراحت کی ہے اوریہ کہ زبان سے جواب مستحب ہے یہاں تک کہ فقہائے کرام نے فرمایا کہ اگر زبان سے اذان کا جواب دے گا تو ثواب حاصل کرے گا، ورنہ زبان سے جواب نہ دینے میں کوئی گناہ اور کراہت نہیں ۔۔۔ اور مجمع الانہر میں جواہر کے حوالہ سے ہے کہ مؤذن ( یعنی اذان) کا جواب دینا سنت ہے اور درہ منیفہ میں ہے کہ اظہر قول کے مطابق اذان کا جواب دینا مستحب ہے اور حاصل یہ ہے کہ زبان سے جواب دینے کے واجب ہونے میں تصحیح کا اختلاف ہے اور زیادہ ظاہر اس (کےجواب) کا واجب نہ ہونا ہے۔(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، جلد 1، صفحہ 202، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
فتاوی فیض الرسول میں ہے: ”بہتر یہ ہے کہ اذان ہونے سے پہلے افطار کرے پھر جب اذان شروع ہو جائے تو کھانا پینا بند کرے اور اگر اذان شروع ہونے پر افطارکرے تو تھوڑا کھا پی کر ٹھہر جائے، اذان کا جواب دے پھر اس کے بعد جو چاہے کھائے پیئے۔‘‘(فتاوی فیض الرسول، جلد 1، صفحہ 514، شبیر برادرز،لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم