
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
میں ایک اسکول میں ٹیچر کی جاب کرتی ہوں اور پیر سے جمعرات میری ڈیوٹی ہے، تو کیا میں جمعے اور ہفتے کے دن، ماہِ رمضان المبارک کے عذر کی وجہ سے قضا ہو جانے والے روزے رکھ سکتی ہوں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
رمضان المبارک کے جوروزے قضا ہوگئے ہوں، وہ رمضان کے بعد، سال میں جن دنوں میں روزہ رکھنے کی ممانعت ہے (یکم شوال کا دن اور دس ذو الحجہ سے تیرہ ذو الحجہ تک کے دن) ان کے علاوہ کسی بھی دن رکھے جا سکتے ہیں، لہذا ان تاریخوں کے علاوہ میں جوہفتے اورجمعے کے دن آئیں، ان میں بھی رکھے جاسکتے ہیں کہ جمعے اور ہفتے کے دن قضاروزے رکھنے کی کوئی ممانعت نہیں ہے اور ہفتے میں صرف دو دن بھی قضا روزے رکھ سکتے ہیں کہ قضاروزے مسلسل رکھنا لازم و ضروری نہیں ہے۔ البتہ! بہتر ہے کہ جتنا ممکن ہو جلد از جلد تمام روزوں کو قضا کرلیا جائے کہ اس میں نیکی کرنے میں جلدی کرنا بھی ہے اور ذمہ پر جو روزوں کی قضا ہے اس سے جلد سبکدوش ہونا بھی ہے۔
ایامِ ممنوعہ کے علاوہ زندگی میں کبھی بھی قضا روزے رکھے جاسکتے ہیں۔ جیسا کہ احکام القرآن للطحاوی میں ہے:
{فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ} و لم يخص بتلك الأيام الأخر ما قبل شهر رمضان الجائي۔۔۔۔ رسول الله صلى الله عليه و سلم قد أمر الذي أفطر يوما من رمضان فيما روينا عنه في هذا الباب، أن يقضي يوما مكانه، و لم يقل له في شهر رمضان الذي بعده، فدل ذلك على أنه قد أطلق له القضاء في كل الدهر لا فيما نهى عن صومه من الأيام التي نهى عن صومها۔
ترجمہ: ”اللہ عزوجل کے اس فرمان:(فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ) میں آنے والے رمضان سے پہلے کے دنوں کو خاص نہیں کیا گیا۔ رسول اللہ (عزوجل و صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس شخص کو جس نے رمضان کا روزہ چھوڑا تھا، اس روزے کے بدلے میں ایک روزہ قضا کرنے کا حکم دیا، اس روایت میں جوآپ علیہ الصلوۃ و السلام سے اس باب میں ہم نے روایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے یہ نہ فرمایا کہ اس مہینے میں قضا کرو کہ جو اس رمضان کے بعد آنے والا ہے لہذا یہ اس بات پر دلالت ہے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے اس روزے کی قضا کرنے کے لیے پورے زمانے کو مطلق رکھا سوائے ان ایامِ ممنوعہ کے کہ جن میں روزے رکھنا ممنوع ہے۔ (أحكام القرآن للطحاوی، ج 01، س 414، مطبوعہ: استنبول)
حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے
"(و لا يشترط التتابع في القضاء لإطلاق النص لكن المستحب التتابع و عدم التأخير) ای بعد زوال العذر (عن زمان القدرة مسارعة إلى الخير و براءة الذمة)"
یعنی قضا روزے لگاتار رکھنا شرط نہیں کہ نص اس بارے میں مطلق ہے لیکن لگاتار روزے رکھنا اور عذر کے زائل ہونے کے بعد قدرت ہونے کے باوجود تاخیر نہ کرنا مستحب ہے کہ اس میں بھلائی اور برئ الذمہ ہونے کی طرف سبقت کرنا ہے۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، کتاب الصوم، ص 687، مطبوعہ: کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا احمد سلیم عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-3937
تاریخ اجراء: 19 ذو الحجۃ الحرام 1446 ھ / 16 جون 2025 ء