کان کا پردہ پھٹا ہو تو روزے میں غسل کیسے کريں؟

 

کان کا پردہ پھٹا ہو، تو روزے میں غسل کیسے کريں؟

مجیب:مفتی ابومحمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Gul-3039

تاریخ اجراء: 01جمادی الاولیٰ1445    ھ/16نومبر2023 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

  کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارےمیں کہ اگر یہ یاد ہوتے ہوئے کہ روزہ ہے ، کان کے اندر پانی چلا جائے اور کان کا پردہ پھٹا ہوا ہو، تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جس کے کان کا پردہ پھٹا ہوا ہو، ا س پر  روزے کی حالت میں غسل فرض ہو جائے، تو  وہ روزے کی حالت میں غسل کیسے کرے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جدید طبی تحقیق یہی ہے کہ  کان  کا پردہ پھٹاہو،تو کان منفذہےاوراس کے راستے کوئی چیز داخل کی جائے،توروزہ ٹوٹ جائےگا،جبکہ روزہ دارہونایادہو۔فرض غسل میں تمام ظاہری بدن پہ پانی بہانا فرض ہے سوئی کی نوک برابر بھی کوئی حصہ دھلنے سے رہ گیا، تو غسل  نہیں ہو گا۔ البتہ روزے دار ہو یا نہ ہو،  کان کے سوراخ کے اندر پانی ڈال کر دھونا یا انگلی ڈال کر دھونا ضروری نہیں ،بلکہ سوراخ  کا منہ اور باقی ظاہری حصے کا دھلنا ضروری ہے۔غسل میں کان کے پردے تک پانی پہنچانا ضروری نہیں ہے۔

   اوپر دی گئی تصویر میں کان کا وہ حصہ جس کو دھونا ضروری نہیں ہے، تیر کے نشان کے ذریعے اس کی وضاحت کی گئی ہے کہ کان کے سوراخ کے اندر انگلی ڈال کر دھونا یا پانی پہنچانا ضروری نہیں،البتہ سوراخ  کا منہ  دھونا ضروری ہے، یونہی اس سے اوپر کان کے مکمل حصہ کا دھونا بھی ضروری ہے۔سائل کو چونکہ کان کے پردے  کا مسئلہ ہے، لہٰذا اسے چاہیے کہ ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق عمل کرتے ہوئے اوپر دی گئی تصویر کے مطابق غسل سے پہلےکان کے جس حصے کو دھونا ضروری نہیں یعنی  اپنے کانوں کے سوراخ کے اندر روئی وغیرہ ڈال کر انہیں بند کرلے تاکہ کان کے پردے تک پانی نہ جائے اور کان کے باقی حصے کو دھولے۔ اگر اس بات کا لحاظ کرتے ہوئے غسل کریں گے، تو  کان کے سوراخ میں  پانی نہیں جائے گا اور غسل ہو جائے گا۔لیکن سوراخ کا منہ غسل میں دھلنا ضروری ہے اس کا لحاظ رکھا جائے۔

   درمختار میں ہے:”يفرض (غسل) كل ما يمكن من البدن بلا حرج مرة كأذن و (سرة وشارب)“ ترجمہ:بدن کا ہر وہ حصہ جسے بلاحرج دھونا، ممکن ہے، اسے ایک بار دھونا فرض ہے، جیسے کان، ناف مونچھیں۔  (در مختار شرح تنوير الأبصار ،صفحہ 26، دار الكتب العلمية)

   سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:” ظاہر ہے کہ وضو میں جس جس عضو کا دھونا فرض ہے غسل میں بھی فرض ہے، تو یہ سب اشیاء یہاں بھی معتبر اور ان کے علاوہ یہ اور زائد۔ سر کے بال کہ گندھے ہوئے ہوں،  ہر بال پر جڑ سے نوک تک پانی بہنا۔ کانوں میں بالی پتّے وغیرہ زیوروں کے سوراخ  کا غسل میں وہی حکم ہے جو ناک میں بلاق وغیرہ کے چھید کا غسل و وضو دونوں میں تھا۔بھنووں کے نیچے کی کھال اگرچہ بال کیسے ہی گھنے ہوں۔ کان کا ہر پرزہ،  اس کے سوراخ کا منہ۔(فتاویٰ رضویہ، جلد1(حصہ ب)صفحہ602، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   غسل میں کانوں کو دھونے کے متعلق بہارِ شریعت میں ہے:”(غسل کا تیسرا فرض) تمام ظاہر بدن یعنی سر کے بالوں سے پاؤں کے تلوؤں تک جِسْم کے ہر پُرزے ہر رُونگٹے پر پانی بہ جانا۔ اکثر عوام بلکہ بعض پڑھے لکھے یہ کرتے ہیں کہ سر پر پانی ڈال کر بدن پر ہاتھ پھیر لیتے ہیں اور سمجھے کہ غُسل ہو گیا حالانکہ بعض اعضا ایسے ہیں کہ جب تک ان کی خاص طور پر اِحْتِیاط نہ کی جائے نہیں دھلیں گے اور غُسل نہ ہوگا۔۔۔ (۴) کان کا ہر پرزہ اور اس کے سوراخ کا مونھ ۔ ۔۔“(بھارِ شریعت، جلد1،صفحہ 317، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم