
تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضانِ مدینہ جنوری 2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے نفل روزہ رکھا لیکن صبح سات بجے اسے اپنے کسی عزیز کے گھر مہمان بن کر جانا پڑا، جس کی وجہ سےزید نے مجبوراً وہ روزہ توڑدیا۔ آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا زید پر اُس روزے کی قضا لازم ہوگی؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جی ہاں! پوچھی گئی صورت میں زید پر اُس نفل روزے کی قضا لازم ہے۔
مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ نفل روزے کو بغیر کسی عذرِ شرعی کے توڑنا ناجائز و گناہ ہے، البتہ مہمان اگر میزبان کے ساتھ نہ کھائے تو اُسے اذیت ہوگی یہ نفل روزہ توڑنے کے لئے عذر ہے، بشرطیکہ مہمان کو اس روزے کی قضا کرلینے پر اعتماد ہو اور وہ یہ نفل روزہ ضحوۂ کبریٰ سے پہلے توڑے۔ واضح ہوا کہ پوچھی گئی صورت میں زید نے وہ نفل روزہ خواہ عذر کے سبب توڑا تھا یا بغیر عذر کے، بہر صورت اُس نفل روزے کی قضا کرنا زید کے ذمہ پر لازم ہے، نیز جان بوجھ کر بغیر کسی عذرِ شرعی کے نفل روزہ توڑنے کی صورت میں قضا کے ساتھ ساتھ زید پر اس گناہ سے توبہ کرنا بھی ضروری ہے۔ (فتاوٰی عالمگیری،1/208-بہار شریعت، 1/1007-رد المحتار مع الدرالمختار ، 3/475)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم